بابائے لاہور سرگنگا رام کی پڑپوتی کیشارام امریکی ریاست ورمونٹ سے سینیٹر منتخب

kesha ram grand grand daughter of sir ganga ram and us senetor
کیپشن: kesha ram us senetor
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ویب ڈیسک : بابائے لاہور سر گنگا رام کی پڑپوتی کیشا رام امریکا کی ریاست ورمونٹ سے سینیٹر منتخب، شلوار قمیض پہن کر حلف اٹھایا۔

امریکی سیاست میں مسلسل کئی برسوں سے اہم کردار ادا کرنے والی کیشا رام 2009 سے لے کر2016 تک ایوان نمائندگان میں ورمونٹ کی نمائندگی  کرچکی ہیں۔  چٹنڈن 6.4  ڈسٹرکٹ سے منتخب ہونے والی کیشا رام ہاورڈ یونیورسٹی  اور یونیورسٹی آف ورمونٹ کی گریجویٹ ہیں۔ اوراپنے عظیم پڑدادا سرگنگارام کی طرح فلاحی کاموں میں مصروف رہتی ہیں لیکن اس کے لئے  برصغیر کی بجائے انہوں نے امریکا کو منتخب کیا۔

یادرہے ان کے پڑدادا سر گنگارام کو بابائے لاہور کہا جاتا ہے ۔13 اپریل،1851کو دولت رام کے گھر پیدا ہونے والے گنگارام نے میٹرک  امرتسر سے کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹر کیا اور روڑکی انجنئیرنگ کالج سے گولڈ میڈل کے ساتھ انجنئیرنگ کی بعد ازاں لاہور میں اسٹنٹ انجنئیر کی ملازمت کی ۔لاہور کے مال روڈ کی بیشتر عمارات لاہور ہائی کورٹ، جی پی او، عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس، کیتھڈرل سکول، ایچیسن کالج، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ انھی سر گنگا رام کی بنوائی ہوئی ہیں۔

ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اور لاہور کا جھومر کچھ اور عمارتیں بھی انہی کی دین ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ اور تعمیر کی جو اب بھی سب سے مہنگا  اور آئیڈیل رہائشی علاقہ ہے ۔

فلاحی کاموں میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ برصغیر کی بیوہ عورتوں کی دوسری شادی کےلئے ایک فلاحی تنظیم قائم کرنا تھا  وہ آل انڈیا وڈو ری میرج ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لائے جس کے ذریعے ہزارہا عورتوں کی دوسری شادیاں ممکن ہوپائیں۔ یہ اس معاشرے میں ہوا جہاں عورتیں ستی ہوا کرتی تھیں۔

1922 میں گنگا رام کو سر کا خطاب عطا ہوا۔ اگلے برس انھوں نے اپنے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے چلانے اور کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے بڑی رقوم عطیہ کیں اور اپنی کئی ذاتی عالی شان عمارتیں اور جائیداد ٹرسٹ کے حوالے کیں، جس کی آمدنی سے یہ ٹرسٹ مسلسل چلتا رہا۔

گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔ ہیلے کالج آف کامرس ان کے ذاتی گھر میں قائم کیا گیا۔ 10 جولائی 1927 کو لندن  کے دورے پر تھے جہاں ان کی وفات ہوگئی۔ ان کی آخری رسومات لندن ہی میں ادا کی گئیں۔ ان کی آدھی راکھ دریائے گنگا میں بہا دی گئی جبکہ آدھی راکھ لاہور میں مینار پاکستان کے قریب دفن ہے۔