سانحہ ماڈل ٹاون کو چھ سال مکمل

سانحہ ماڈل ٹاون کو چھ سال مکمل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

عرفان ملک: سانحہ  ماڈل ٹاون کو چھ سال مکمل ہو گئے  سانخہ کے دوران پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے اج بھی انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور، نہ تو گولیوں چلانے والوں کو سزا ہوئی اور نہ ہی گولی چلانے کا حکم جاری کرنے والے قانون کی گرفت میں آئے۔

 

سترہ جون دو ہزار چودہ لاہور کی تاریخ کا ایسا سیاہ دن تاریخ میں لکھا جا چکا ہے، اسی روز پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے منہاج القران مدرسہ اور ڈاکٹر طاہر قادری کی رہائش گاہ پر پولیس کی جانب سے دھاوا بولا گیا، اسی دوران خواتین سمیت دس افراد پولیس کی گولیوں سے اپنی جانیں کھو گئے جبکہ سو سے ذائد افراد گولیوں سے شدید زخمی ہوئے۔

ان چھ سالوں کے دوران ہر دور حکومت میں سانحہ ماڈل ٹاون کے زمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی باتیں ہوئیں لیکن ہوا کیا،نہ کوئی مجرم ٹھہرا اور نہ ہی کسی پر زمہ داری عائد کی جا سکی، عدالت میں ابھی بھی ان ایک سو اکیس پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کیس جاری ہے۔  اس واقعہ میں ملوث تمام بڑے افسرا اج بھی بڑے عہدوں پر ترقیاں پانے کے ساتھ ساتھ پرکشش سیٹوں پر تعینات ہیں لیکن جن افراد نے اس سانحہ میں جانیں دیں ان کی لواحقین کے دلوں پر زخم اج بھی تازہ ہیں۔

17جون 2014ء کی صبح 2 بجے پنجاب پولیس نے لاہورکے مضافاتی علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہرموجود رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے ایک آپریشن کا آغازکیا۔  پولیس کی ایک بھاری نفری پاکستان عوامی تحریک کے صدر مقام پہنچی، جہاں انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان سے رکاوٹیں ہٹانے کو کہا جو ان کے حساب سے غیر قانونی تھیں۔ یہ چھاپہ پولیس کے ان صبح کے معمول کے چھاپوں کے برعکس تھا جن کا انعقاد پولیس اس طرح کے معاملات میں کرتی ہے۔

 پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کا موقف تھا کہ یہ رکاوٹیں قانونی ہیں اور یہ چار سال قبل اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور دفاتر کے گرد لگائی گئیں تھی جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے طالبان کے خلاف فتوٰی  دیا تھا۔  اس کے باوجود پولیس نے بلڈوزرز کی مدد سے رکاوٹوں کو ہٹانے اور تباہ کرنے کا آپریشن جاری رکھا جس نے عوامی تحریک کے کارکنان کو پولیس کی کاروئی کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کرنے پر اکسایا۔

Shazia Bashir

Content Writer