پنجاب پولیس کے افسروں نے اہلکاروں کو خطرے میں ڈال دیا

پنجاب پولیس کے افسروں نے اہلکاروں کو خطرے میں ڈال دیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

علی ساہی: فنڈزمیں کروڑوں روپے کی خورد برد اور بے ضابطگیوں پر بڑے افسروں کو کلین چٹ، اکاؤٹنٹ اور کانسٹیبل ذمہ دار قرار، بھرتیوں اور ترقیوں میں لاکھوں روپے رشوت کا الزام کانسٹیبل اور پرائیویٹ افراد پر لگا کر معاملہ اینٹی کرپشن کو بھجوا دیا گیا۔

پولیس کےاعلی افسران دودھ کے دھلےثابت ہورہے ہیں۔ کرپشن اور بےضابطگیوں کے سامنے آنے والے کیسز میں سپروائزری افسران کو دوبارہ اہم عہدوں پر تعینات کردیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پنجاب پولیس ٹریفک ہیڈ کوارٹر میں 60 کروڑ روپے کے فنڈزکی خوردبرد، بےضابطگیاں اور کرپشن سامنے آنے پر اکاؤنٹنٹ اور کانسٹیبل ذمہ دار قرار دیے گئے ہیں۔

2017 سے 2019 کی انکوائری میں 12 کروڑ سے زائد خوردبرد اور کرپشن ثابت ہونے کے باوجود اکاؤنٹنٹ اختر سعید شاہ اور ایک کانسٹیبل کو نامزد کرکے گرفتارکروادیا گیا ہے۔ کرپشن کا معاملہ نیب کو بھجوا دیا گیا ہے۔ رواں سال 2014 سے 2017 کے آڈٹ میں 50 کروڑ کے قریب بےضابطگیاں اور خوردبرد سامنے آئی۔ آئی جی پنجاب نےآئی اے بی سے ابتدائی انکوائری کروانے کی بجائے معاملہ انٹی کرپشن کوبھجوا دیا ہے۔

انسپکٹرسے ڈی ایس پی رینک کے عہدوں پر ترقیوں کے لئے رشوت لینے کا الزام بھی کانسٹیبل پر عائد کردیا گیاہے۔ شہزاد نامی کانسٹیبلز گزشتہ 10 سال سے متعلقہ برانچ میں تعینات تھا۔ افسروں سے پوچھ گچھ کی بجائے صرف کانسٹیبل پر مقدمہ درج کروا کر کیس انٹی کرپشن کو بھجوا دیا گیا ہے۔

گزشتہ برس بھرتیوں میں امیدواران سے رشوت لینے کے الزام میں پرائیویٹ کمپنی کے عہدیدران ذمہ دار ٹھرائے گئے ہیں۔ کمپنی کو ہائر کرنے اور اہم ذمہ داری سونپنے والے کسی بھی افسر سے انکوائری نہ کی جاسکی۔ بھرتیوں کی انکوائری بھی اینٹی کرپشن کے حوالے کردی گئی ہے۔