(قیصر کھوکھر) حالات کچھ یوں ہیں کہ اس وقت شہبازشریف کے ساتھ کام کرنے والی بیوروکریسی جیل میں ہے اور شہباز شریف خود جیل سے باہر ہیں۔ اور سابق حکمران یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور یہ کہ نہ ہی کسی افسر کو کچھ غلط کرنے کی کبھی ہدایت کی ہے۔ ہر کوئی اپنا کیا خود بھگت رہا ہے۔
ایک وقت تھا کہ افسر شاہی اپنی سائیڈ سیف کر کے کام کرتی تھی۔ لیکن مسلم لیگ نون کی حکومت کا دورانیہ کچھ اس قدر زیادہ رہا اور یہ دورانیہ تین دھائیوں پر مشتمل رہا ہے اور مسلم لیگ نون کے حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے والے افسران تمام ضابطہ قوانین اور رولز اور ریگولیشنز کو بالائے طاق رکھ کر کام کرتے اور حکمرانوں کو خوش کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز کام بھی کردیتے اور آج وہی سابق حکمران ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان افسران نے اگر کچھ کیا ہے تو انہوں نے اپنے طور پر کیا ہے۔
دکھائیں کہاں ہیں ان کا کوئی لکھا ہوا حکم ؟جہاں انہوں نے غلط کام کرنے کی ہدایت کی ہو۔ آج فواد حسن فواد، احد خان چیمہ، وسیم اجمل چودھری جیل میں ہیں جبکہ میاں شہباز شریف جیل سے باہر ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کے دور میں افسران کو ماحول ایسا ملا کہ حکمرانوں نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور ان افسران کی حکمرانوں کی آشیرباد سے مستفید ہوئے اور حکمرانوں کو بھی خوش کیا اورخود بھی فائدے اٹھائے ہیں۔ اور عوام کےلئے کچھ نہیں کیا۔ اور قوانین سے ہٹ کر سب کچھ کیا گیا ہے۔ اس سب کھیل میں ملک و قوم کا نقصان ہوا ہے جس بیوروکریسی کو رولز اور قانون کے مطابق چلنا چاہئے تھا اس نے حکمرانوں کو خوش کرنے کےلئے سب کچھ کیا اور ہر جائز اور ناجائز کام کیا اور عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ بڑے بڑے ٹھیکوں میں حکمرانوں کے منظور نظر افراد کو نوازاگیا اور اس طرح عوام اور ملک کے کاز کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور اب یہی افسران نیب کی انکوائریوں کا سامنا کر رہے ہیں ۔ ایک منجھا ہوا افسر کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ ضرور مد نظر رکھتا ہے کہ اس میں تمام قانونی تقاضے پورے کر لئے گئے ہیں یا کہ نہیں۔ کیونکہ ہر غیر قانونی کام کی کہیں نہ کہیں پوچھ گچھ ضرور ہوتی ہے اور ان افسران نے یہ سمجھ لیا تھا
کہ اب پنجاب حکومت میں کبھی بھی مسلم لیگ نون اپوزیشن میں نہیں جا سکتی ہے اور یہ کہ پنجاب میں اقتدار ہمیشہ ہی مسلم لیگ نون کا رہے گا اور انہی حالات کو دیکھتے ہوئے پنجاب میں بیوروکریسی نے ایک نیا گروپ تشکیل دیا اور اس گروپ کا نام ڈی ایم جی نون کہا جانے لگا اور جو افسران ان حکمرانوں کے قریب تھے انہیں بہت سے فائدوں سے نوازا گیا ،خاص طور پر اچھی تقرری دی گئی اور قابل اور محنتی افسران کو محض اس وجہ سے اچھی فیلڈ تقرریوں سے دور رکھاگیا کہ وہ ڈی ایم جی نون کا حصہ نہ بنے تھے ۔ان میں بہت سارے آﺅٹ اسٹینڈنگ افسران کو کھڈے لائن کی پوسٹنگ دی جاتی رہی ہے اور اب ماضی میں جو افسران حکمرانوں کے قریب تھے اور حکمرانوں کی آشیرباد کیلئے غلط کام کرتے رہے ہیں اور اب وہی افسران زیر عتاب رہے ہیں اور اب پنجاب میں پی ٹی آئی کی نئی حکومت بنی ہے تو ان کھڈے لائن افسران کو باہر نکالا گیا ہے اور انہیں اچھی تقرری دی گئی ہے۔
موجودہ چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر انتہائی فرض شناس اور آﺅٹ اسٹینڈنگ کیریئر کے حامل افسر ہیں انہیں مسلم لیگ نون کے دور میں کھڈے لائن کی تقرری دی جاتی رہی ہے،لیکن اب پی ٹی آئی کی حکومت نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے انہیں پنجاب کا چیف سیکرٹری لگا دیا ہے اور سیکرٹری ریگولیشن ڈاکٹر صالح طاہر یہ کہتے ہیں کہ یوسف نسیم کھوکھر جیسا آوٹ اسٹینڈنگ صلاحیتوں والا چیف سیکرٹری انہیں نے اپنے دور میں نہیں دیکھا۔ ماضی میں مسلم لیگ نون کے دور میں افسران کو محض پسند اور ناپسند کی بنا پر تقرریاں دی جاتی رہی ہیں۔ لیکن کئی بہترین افسران بھی ہیں جو مسلم لیگ نون کے لیبل کی وجہ سے مسلسل کھڈے لائن ہیں ان میں ڈاکٹر توقیر حسین شاہ ایک بہترین کیریئر کے حامل افسر ہیں لیکن مسلم لیگ نون کی قربت کی وجہ سے زیر عتاب ہیں۔
موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر اپنی ٹیم بنا رہے ہیں اور یہ کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو انہیں فری ہینڈ دینا چاہئے تاکہ میرٹ پر ایک بیوروکریسی کی نئی ٹیم بنائی جا سکے ۔ خاص طور پر ینگ افسران کو میرٹ پر چنا جائے اور فیلڈ ڈیوٹی میں ان ینگ اور حوصلہ مند افسران کا چناﺅ کیا جا سکے تاکہ یہی ٹیم چند سال بعد کمشنر اور سیکرٹری لگ سکے۔ یہ توقع کرنی چاہئے کہ موجودہ حکومت ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کو نہیں دہرائے گی اور نہ ہی محض چند افسران کے گرد رہے گی۔ بلکہ ہر افسر کو اس کی صلاحیت اور ان پٹ اور آﺅٹ پٹ کی بنا پر تقرری ملے گی اور بیوروکریسی کے اندر ڈی ایم جی انصاف گروپ نہیں بنایا جائے گا اور تمام کام میرٹ اور رولز اینڈ ریگولیشن کو سامنے رکھ کر کئے جائیں گے خاص طور پر ٹھیکوں اور میگا پراجیکٹ میں عوام اور ملک کا مفاد سامنے رکھا جائے گا۔ یہی سب کے مفاد میں ہوگا ورنہ پی ٹی آئی کے بعد اگلی بننے والی نئی حکومت موجودہ حکومت کا احتساب کرے گی اگر سب کچھ میرٹ پر ہوگا تو کاہے گا ڈر۔