سینیٹ انتخابات:اوپن بیلٹ مخالفت کیوں ؟ پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ 

سینیٹ انتخابات:اوپن بیلٹ مخالفت کیوں ؟ پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اظہر تھراج | سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق آئینی ترمیم ناکام بنانے کے لیے اپوزیشن نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔اپوزیشن کیا چاہتی ہے؟ اوپن بیلٹ انتخابات کی مخالفت کیوں کررہی ہے؟ پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ 

سینیٹ الیکشن میں ارکان اسمبلی کی نیلامی یعنی ہارس ٹریڈنگ کو ئی نئی بات نہیں ،حکومت سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹ سے الیکشن چاہتی ہے،حکومت نے متعلقہ دفعات میں ترامیم کی تیاری کرلی ۔اپوزیشن اس کی بھر پور مخالفت کرے گی ۔اپوزیشن کس منہ سے مخالف کرے گی؟ اس سے قبل اپوزیشن یک زبان ہوکر سینیٹ الیکشن میں خفیہ ووٹنگ کی مخالفت  چاہتی تھی ،سابق وزرا اعظم نواز شریف اور بے نظیر کے میثاق جمہورت کی روح یہ مطالبہ تھا،بلاول بھٹو بھی بار بار اوپن الیکشن مانگتے تھے۔ن لیگ بھی کئی بار کہہ چکی ہے کہ سینیٹ میں شو آف ہینڈ سے الیکشن ۃہنا چاہئے،پھر یہ ہنگامہ کیوں؟ 


سینیٹ انتخابات سے متعلق پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے رہنماؤں کے آپس میں رابطے ہوئے جس میں دونوں ایوانوں سے ترمیم کی منظوری روکنے کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ذرائع کا بتانا ہے کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق آئینی ترمیم کو دونوں ایوانوں سے منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق پیر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اپوزیشن جماعتوں میں اس حوالے سے مزید مشاورت ہو گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے آئینی ترمیم کی مخالفت کا دو ٹوک فیصلہ کر لیا ہے اور پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان کا کہنا ہے کہ حکومت کا ترمیمی بل جلد بازی اور بد نیتی پر مبنی ہے، وزیراعظم نے ارکان کو ترقیاتی بجٹ نہیں رشوت دی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کہتے ہیں کہ  پاکستان میں جمہوریت ہے،آئین میں ترمیم کا ایک جمہوری طریقہ درج ہے،مارشل لا تو ہیں نہیں،ہم چاہتے ہیں اسے پوری الیکٹورل ریفارم کا حصہ ہونا چاہئے،اس پر بحث ہونی چاہئے،ایسے نہیں وہ ترمیم لے آئیں اور ہم قبول کرلیں۔آئین میں زبردستی کی گئی کوئی بھی ترمیم قبول نہیں کریں گے۔پارلیمانی ڈیبیٹ ہوتی ہے،تمام پہلوئوں پر غور کیا جاتا ہے،پھر اسے ایوان میں لایا جات ہے اس پر بحث کی جاتی ہے،سب کو اس پر بحث کا حق ہونا چاہئے۔

میثاق جمہوریت کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،بھیڑ بکریوں کی طرح کی ترمیم ہم نہیں چاہتے۔ہمارا طریقہ کار پر اختلاف ہے،اس بات پر تو ہم رضا مند ہیں کہ ترمیم ہونی چاہئے۔ہر رکن کو رائے دینے کی اجازت ہونی چاہئے۔میرا انداز یہی ہے کہ یہ بل پرڈائریکٹ ووٹنگ چاہتے ہیں۔ایسا نہیں ہوسکتا ۔تمام ارکان کو اس بل پر بات کرنے کی اجازت ہونی چاہئے،میرے ذاتی خیال میں شو آف ہینڈز کرنے کی ضرورت بھی نہیں ،مخصوص سیٹوں کی طرح سینٹرز منتخب کرلئے جائیں۔
 

دوسری جانب گزشتہ چار ماہ میں اپوزیشن منقسم ،نحیف ہوگئی ،مخلوط حکومت کی دراڑیں بھر گئیں،عمران خان کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوگیا ۔دسمبر بھی گزر گیا ،جنوری کی آخری مدت بھی گزر گئی ،حکومت کے منہ پر استعفے مارنے کا وقت آگیا ۔

سیاسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم نے جلسے اچھے کیے،بہت اچھا مومینٹم پیدا کیا لیکن اس برقرار نہیں رکھ سکے، انہوں نے جلدی کی ،غیر حقیقی باتیں کی ،ہر ایک استعفیٰ نہیں دیتا،استعفوں سے پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں،خصوصا ً مریم نواز نے استعفوں کا اعلان کرنے میں جلد بازی کی، پیپلز پارٹی نے کبھی بھی استعفے نہیں دینے تھے، نواز شریف نے شروع میں جو تقاریر کیں وہ اچانک رک گئیں،اس کا جواب تو ایک عرصے بعد ملے گا ۔

ہوسکتا ہے پارٹی کی اندر سے دبائو ہو،کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے یو ٹرن لیا ہے،بلاول بھٹو نے استعفوں کو ایٹم بم کہا اور پھر پیچھے ہٹ گئے۔پس پردہ کوئی چیزیں چل رہی ہیں یا کچھ اور ہے،یہ تو آنیوالا وقت بتائے گا،یہ ضرور ہے کہ پی ڈی ایم کے رویے میں نرمی پیپلز پارٹی کی وجہ سے آئی ہے۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer