ویب ڈیسک: تحریک انصاف نے اپنے سینئیر رہنما پرویز خٹک کو عمران خان کی پالیسیوں اور 9 مئی حملہ کی مخالفت کرنے کے الزام میں پارٹی سے نکال دیا۔
پرویز خٹک نے 9 مئی کے واقعات کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ عملاً لاتعلقی اختیار کر لی تھی اور 2 جون کو انہوں نے تحریک انصاف کے تمام عہدوں اور ذمہ داریوں سے رسمی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسلام آباد میں اپنی نیوز کانفرنس میں پرویز خٹک نے کہا تھا کہ 9 مئی کو کچھ اچھا نہیں ہوا، میں اس واقعے کی پہلے بھی مذمت کر چکا ہوں، اللہ کرے کہ ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔
پرویز خٹک نے کہا تھا کہ ملک کا سیاسی ماحول خراب ہے۔ "میں نے پارٹی کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوستوں سے مشاورت کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کروں گا"۔
پرویز خٹک خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر تھے۔ وہ 2013 سے 2018 تک پی ٹی آئی کے دور میں کے پی کے وزیر اعلیٰ رہے۔
پارٹی عہدوں سے الگ ہونے کے بعد پرویز خٹک نے پختونخواہ میں اپنے ساتھیوں کا بڑا گروپ بنا لیا ہے جس میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن بننے والے کئی افراد شامل ہیں۔
21 جون کو تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے پرویز خٹک پر پارٹی رہنماوں کو جماعت سے علیحدگی پر اکسانے کا الزام لگاتے ہوئےپرویز خٹک کیخلاف جماعتی سطح پر کارروائی کا آغاز کردیا۔
مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب کی جانب سے پرویز خٹک کو اظہاروجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا ور ان سے 7 روز میں جواب طلب کیاگیاہ۔
جواب تسلی بخش نہ ہونے یا اظہاروجوہ کے نوٹس کے جواب سے گریز پر کارروائی آگے بڑھانے کی تنبیہ کی گئی۔ نوٹس میں کہا گیاہے کہ جماعت کے علم میں آیا ہے کہ آپ اراکین سے روابط قائم کرکے انہیں جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے پر اکسا رہے ہیں۔
چئیرمین تحریک انصاف کے بنائے ہوئے پارٹی سیکرٹری جنرل نے پرویز خٹک کو ان کی سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا تو پرویز خٹک نے اس نوٹس کا کوئی جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے تحریک انصاف کی جانب سے پرویز خٹک کی بنیادی رکنیت معطل کرتے ہوئے انہیں دوبارہ نوٹس دیا گیا اورر آج ان کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفیکیشن نکال دیا گیا۔