پنجاب حکومت کے 100 دن

پنجاب حکومت کے 100 دن
کیپشن: City42 - Qaiser Khokhar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے پہلے 100دن میں گورننس کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ بیوروکریسی جس نے گورننس قائم کرنا تھی اس کا اپنا مورال گر رہا ہے۔ ڈی سی اور ڈی پی او سیالکوٹ کو معمولی غلطی پر او ایس ڈی بنانے سے بیوروکریسی اَپ سیٹ ہوئی ہے۔ مہنگائی اور ڈالر کی بلند پرواز ہے۔ بیوروکریسی کو سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے اور کس کی بات پر عمل کیا جائے اور کس کی بات کو نظر انداز کیا جائے۔

 پنجاب حکومت نے اپنے پہلے سو دن مکمل کر لئے ہیں اور ان سو دنوں میں ایک چیف سیکرٹری اور دو آئی جی پولیس کو ٹرانسفر کرنے اور پاکپتن، کے ڈی پی او رضوان گوندل، ڈی سی گوجرانوالہ شعیب طارق وڑائچ اور ڈی سی و ڈی پی او سیالکوٹ کے تبادلے اہم ”کارنامے “ تصور کئے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں ٹرانسفر ہونے والے ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو میاں شہباز شریف سٹائل میں اچانک بہتر پروٹوکول نہ دینے پر ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت کے کابینہ ونگ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا کہ تمام محکموں کے سیکرٹری، افسران، کمشنرز، اور ڈی پی اور ڈی سی صبح دس بجے سے دن 12بجے تک اپنے اپنے دفاتر کے دروازے کھول کر رکھیں گے اوراس اوپن ڈور پالیسی کے تحت عوام کی شکایات سنیں گے۔ لیکن اس نوٹیفکیشن پر ابھی تک کوئی عمل نہیں ہو سکا ۔ کسی بھی افسر نے اپنے آپ کو عوام کا نوکر نہیں سمجھا ہے اور حتیٰ کہ اعلیٰ افسران اور سیکرٹریوں نے ابھی اس دوران اجلاس کے بہانے دفاتر سے باہر رہے ہیں اور عوام اور سائلین بے چارے سیکرٹریوں اور ڈی سی ، کمشنرز، اور ڈی پی او اور آر پی او کے انتظار میں دفاتر کے چکر لگاتے رہے ہیں۔

 حکومت نے جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر ایک الگ سے صوبہ بنانے کی بجائے جنوبی پنجاب کے لئے ایک الگ سے سول سیکرٹریٹ بنانے کا لالی پاپ دیا ہے جس کا مقصد بیوروکریسی کے حجم اور سائز اور مراعات میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر ایک تجربہ کار اور منجھے ہوئے افسر ہیں لیکن انہیں ابھی تک پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنی ٹیم بنانے کا مینڈیٹ نہیں دیااور نہ ہی انہیں بیوروکریسی کے تقرر و تبادلے کے حوالے سے فری ہینڈ دیا ہے۔

اگر یوسف نسیم کھوکھر کو پنجاب حکومت فری ہینڈ دیتی تو شاید ڈی پی او اور ڈی سی سیالکوٹ کے تبادلے کی نوبت ہی نہ آتی اور معاملات بہتر طور پر چلائے جاتے اور پہلے سے ہی وزیر اعظم کے دورہ سیالکوٹ کے موقع پر اے پلان اور بی پلان تیار رکھے جاتے تاکہ کسی بھی ہزیمت سے بچا جا سکتا ۔ سیالکوٹ کی سیکورٹی اور پروٹوکول میں قصور ڈی سی سیالکوٹ محمد طاہر وٹو کا تھا لیکن ساتھ ساتھ ڈی پی او عبدالغفار قیصرانی کو بھی قربانی کا بکرا بنا دیا گیا اور ڈی سی اور ڈی پی او کو بیک وقت تبادلوں سے حکومت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پنجاب حکومت میں ابھی تک کے پی کے سٹال حکومت نافذ نہیں ہو سکا ہے ۔

چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر اور آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی کو ہائرنگ اور فائرنگ کے وہ اختیارات نہیں مل سکے ہیں جو کہ ان کے کاونٹر پارٹ کو کے پی کے میں حاصل ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) اعجاز احمد کو پنجاب کے گراؤنڈ حقائق کا علم ہی نہیں ،کہ گریڈ 17کے کن اے سی کو کہاں لگانا ہے اور کس کو کہاں لگانا ہے ۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو طارق نجیب نجمی کو گریڈ 22میں ترقی دے کر بطور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کام جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر ابھی تک اپنی ایک ٹیم نہیں بنا سکے ہیں۔ ابھی تک نگران دور کی ٹیم سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔ ابھی تک پی ٹی آئی کی حکومت پنجاب میں اپنے قدم ہی نہیں جما سکی ہے۔ بیوروکریسی کی راہ اور سمت کا تعین ہی نہیں ہو سکا ۔ ڈی سی سیالکوٹ اور ڈی پی او سیالکوٹ کے اچانک اور بے تکے تبادلے نے بیوروکریسی کو ہلا کر رکھا دیا ہے کہ کسی بھی وقت کسی کے بھی ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ منفی سوچ کے افسران ابھی تک اہم اسامیوں پر تعینات ہیں۔

وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو فوری طور پر چیف سیکرٹری کو پنجاب کے انتظامی معاملات میں فری ہینڈ دینا چاہئے تاکہ وہ اپنی میرٹ پر ایک ٹیم بنا سکیں۔ پنجاب حکومت ابھی تک بیوروکریسی سے او پن ڈور پالیسی پر بھی عمل نہیں کرا سکی ۔ پی ٹی آئی حکومت اگر بیوروکریسی سے اوپن ڈور پالیسی پر عمل کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عوام کے آدھے مسائل از کود حل ہو جائیں گے اور عوام کو چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے اعلی حکام ، ارکان اسمبلی ، اور عدالتوں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا۔ پنجاب بھر میں اسسٹنٹ کمشنرز کے تبادلوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

تین ماہ میں پہلی بار وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنے حلقے کا دورہ کیا ہے۔ ارکان اسمبلی کی مداخلت روکنے کے لئے اسسٹنٹ کمیشنر کے تبادلوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پنجاب حکومت کا پہلے سو دن میں کوئی بڑا فیصلہ سامنے نہیں آیا ، نہ ہی ابھی تک نئے بلدیاتی ایکٹ کو حتمی شکل دی جا سکی ہے۔ نہ کوئی بڑا پراجیکٹ لانچ کیا جا سکا ہے اور نہ ہی کوئی انسانی ترقی کا منصوبہ سامنے آیا ہے۔ حتی کہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے ابھی تک کوئی پراگریس رپورٹ بھی جاری نہیں کی۔

بیوروکریسی اور پی ٹی آئی کے درمیان ابھی تک ہنی مون ہی ختم نہیں ہوا اور ابھی تک بیوروکریسی اور حکومت کے درمیان صحیح طور پر اندر سٹیڈنگ ہی سامنے نہیں آ سکی ہے ۔ جس کے باعث یہ نہیں کہا جاسکتاکہ پنجاب میں حکومت کے سو دن تسلی بخش ہیں بلکہ صوبے کی غیریقینی انتظامی صورتحال نئے پاکستان کے قیام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر