(ملک اشرف) پنجاب کی زبان پنجابی تعلیمی اداروں سے غائب ہوگئی، ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں پنجابی کو تعلیمی نصاب میں لازمی پڑھانے کی استدعا، جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجابی پاک و ہند کا کلچر، پوری دنیا میں مقبول ہے لیکن پنجابی کو یہاں کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے؟؟ حکومت بتائے پنجابی کے فروغ کیلئے کیا کیا؟؟؟
لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس جواد حسن نے چیئرمین ورلڈ پنجابی یونین مدثر اقبال بٹ سمیت دیگر کی درخواست پر سماعت کی، درخواست میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا، درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ کسی بھی قوم کی بنیاد اس کی مادری زبان پر ہوتی ہے، سندھ میں سندھی زبان، بلوچستان میں بلوچی اور کے پی کے میں پشتو زبان نصاب کا حصہ ہے، عالمی شہرت کے حامل صوفیا کرام و شعرا اور ادباء نے پنجابی زبان میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں، استدعا ہے کہ پنجابی زبان کو بطور لازمی مضمون نصاب میں شامل کرنے کا حکم دیا جائے۔
جسٹس جواد حسن نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ پنجابی زبان پنجاب اور ہندو پاک کا کلچر ہے، اس کے تحفظ کے لئے اقدمات کی ضرورت ہے، پوری دنیا میں پنجابی زبان کی اہمیت ہے، یہاں کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے؟؟ بتایا جائے پنجابی زبان کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
جسٹس جواد حسن نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پنجابی کسی جگہ پڑھائی جاتی ہے، وکیل بولا تعلیمی اداروں میں پنجابی زبان ختم ہی نہیں کی گئی بلکہ پنجابی نظام ہی تباہ کردیا گیا، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اس مضمون کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔
جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ پنجابی زبان کو نصاب کا حصہ نہ بنایا گیا تو یہ بتدیج ختم ہوسکتی ہے۔ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سعدیہ ملک نے کہا کہ پنجابی زبان تعلیمی اداروں میں بطور اختیاری مضمون پڑھائی جاتی ہے۔ عدالت نے موقف سننے کے بعد وفاقی اور پنجاب حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔