پروٹیکشن آف وومن وائیلنس ایکٹ پر عملدرآمد نہ کرنے کیخلاف فیصلہ محفوظ

 پروٹیکشن آف وومن وائیلنس ایکٹ پر عملدرآمد نہ کرنے کیخلاف فیصلہ محفوظ
کیپشن: Lahore High Court
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ملک اشرف: لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ نے پروٹیکشن آف وومن وائلنس ایکٹ پر عملدرآمد نہ کرنے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ملتان میں خواتین پروٹیکشن سنٹرز بنا کر حکومت نے باقی اضلاع کی خواتین کیساتھ امتیازی سلوک کیا، مخصوص انصاف سب سے بڑی نا انصافی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس علی ضیاء باجوہ نے شبنم دل محمد کی حبس بے جا درخواست پر سماعت کی۔ عدالتی حکم پر عدالتی معاون ابوزر سلمان نیازی اور سحر بندیال پیش ہوئے، عدالتی حکم پر سیکرٹری ویلفئیر اور چیئرپرسن خواتین اتھارٹی کنیز فاطمہ بھی پیش ہوئیں۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کہا عدالت نے چیئرپرسن کو رپورٹ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ سیکرٹری سوشل ویلفیئر نے جواب دیا کہ میں نے چیئرپرسن کی طرف سے رپورٹ جمع کرائی، عدالت کا بغیر دستخط بریفنگ صفحہ پیش کرنے پر چیئرپرسن وومن پروٹیکشن اتھارٹی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہائیکورٹ میں پیش ہونے کا یہ طریقہ ہے؟ چیئرپرسن وومن پروٹیکشن اتھارٹی نے کہا جب چارج لیا، تب میرے لئے کرسی میز بھی نہیں تھا۔ دفتر کا سامان مکمل کروایا اور کمیٹیاں بنائیں۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے چیئر پرسن وومن پروٹیکشن اتھارٹی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ نے صرف ابھی تک میز کرسی حاصل کی ہے؟ چیئر پرسن وومن پروٹیکشن اتھارٹی نے جواب دیا سر ایسا نہیں ہے، میں نے قانون میں ترمیم کیلئے سمری وزیراعلی کو بھجوائی ہے، بے نظیر بھٹو کرائسسز سنٹرز کا نام تبدیل کرنے کیلئے قانون میں ترمیم کررہے ہیں۔ ایکٹ میں موجود ہے کہ جہاں ادارے بنتے جائیں گے وہاں قانون نافذ ہوتا جائے گا، اسی سال لاہور اور راولپنڈی میں پروٹیکشن سنٹرز بننے جا رہے ہیں۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کہ ادھر آپ کی تشریح نہیں چلے گی، یہاں قانون کی تشریح چلے گی، لاہور میں تحفظ خواتین قانون نافذ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہی نہیں ہوا تو آپ کے پروٹیکشن سنٹرز بنانا غیر قانونی ہو گا۔ چیئر پرسن بولیں میں پولیس، پراسکیوشن کیساتھ مل کر کام کر رہی ہوں، چیئرپرسن تحفظ خواتین اتھارٹی غیر رسمی دورے کرتی ہیں۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کہا مطلب سرکاری خرچے پر غیر رسمی دورے ہو رہے ہیں، قانون میں غیر رسمی اختیارات کا کوئی تصور ہے؟ ایک ایسا قانون جو ابھی نافذ ہی نہیں ہوا اس کے تحت غیر رسمی دورے کئے جا رہے ہیں، غیر رسمی دوروں کے ذریعے 5 سال سے قانون نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی۔ چیئرپرسن کنیز فاطمہ بولیں میں اعزازی طور پر چیئرپرسن تعینات ہوں۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے چئیرپرسن وومن پروٹیکشن اتھارٹی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کے اعزاز ی عہدہ لینے کی بات سے عدالت آپ کے جذبے کی قدر کرتی ہے، ہمیں تعمیری کام کرنا ہے، کسی کی ٹانگ نہیں کھینچنی، چیئرپرسن کنیز فاطمہ بولیں پہلے 4 ماہ تو گاڑی اور پیٹرول اپنی جیب سے دیا تھا۔ جسٹس علی ضیاء بولے چیئرپرسن تو خود متاثرہ خاتون ہیں، جسٹس علی ضیاء کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہہ لگا۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کنیز فاطمہ سے کہا آپ یہ ساری باتیں تحریری طور پر دے دیں تو عدالت کی بڑی مدد کریں گی۔

چیئرپرسن وومن پروٹیکشن اتھارٹی بولیں سر اگر میں نے لکھ کر دے دیا تو وزیراعلیٰ مجھے فارغ کر دیں گے، چیئرپرسن کنیز فاطمہ کے بیان پر عدالت میں پھر قہقہہ لگا۔ عدالت نے کہا کہ آپ یہ بھی لکھ کر دے دیں کہ وزیراعلیٰ آپ کو فارغ کر دیں گے۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں پھر قہقہہ لگا۔سیکرٹری سوشل ویلفئیر سمیت دیگر متعلقہ افسران نے اپنی رپورٹس عدالت میں جمع کروائیں۔