کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی ؟

کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی ؟
کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی ؟
کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی ؟
کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی ؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42 : کورونا وائرس نے انسانوں کو گھٹنوں کے بل جھکا دیا ہے۔ چین کے شہر ووہان میں دریافت ہونے والا قاتل وائرس امریکا اور یورپ کے گلی کوچوں میں گھمسان کی جنگ برپا کیے ہوئے ہے، ترقی یافتہ ممالک کا ہیلتھ سسٹم فلاپ ہوچکا ہے، اسپتالوں میں طبی عملہ مریضوں کو سنبھالتے سنبھالتے ہانپ رہا ہے تو مقامی انتظامیہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں بے بس نظر آتی ہے۔ عالمی معیشت سسکیاں لے رہی ہے۔ امریکا سے پاکستان تک، مشرق سے مغرب تک کروڑوں افراد اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔ محمود و ایاز ایک صف میں آن کھڑے ہوئے ہیں۔ جن چہروں پر شادمانی کی چمک ہوتی تھی ان پر مایوسی اور بھوک کی بے رخی چھائی ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں بھوک رقصاں ہے۔


کورونا وائرس نے ووہان کی گوشت منڈی میں سب سے پہلے ایک دکاندار کو متاثر کیا، اور پھر آنے والے دنوں میں پوری دنیا کا سفر کیا۔ اب تک 200 سے زیادہ ممالک کورونا کی وبا کو کنٹرول کرنے کےلیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ وبائی مرض ایک تاریخی حادثہ ہے، ایسا حادثہ جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سنگین حقیقت ثابت ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں لیکن سب سے زیادہ صحت اور معاشی ڈھانچہ اس کے وار سے زخمی ہے۔ ہمارے پاس وائرس کے علاج یا ویکسین کےلیے ٹائم لائن کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں اور نہ ہم یہ طے کرسکتے ہیں کہ دنیا کی معیشت اس سے کتنی تباہ ہوگی اور کب ٹھیک ہوجائے گی۔ کورونا نے انسان کے تیار کردہ نظاموں کی ناپائیداری، ہمارے علم اور مضبوطی کی حدود کو بے نقاب کردیا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے طرز زندگی اور وبائی امراض کے حل پر دوبارہ غور کریں۔ کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن امریکی ڈاکٹر فاؤ چی کہتے ہیں کہ صرف امریکا میں ایک سے دو لاکھ افراد موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس وائرس سے امریکا میں تقریباً آٹھ سے دس لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خد شہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اگر ’’ہم ایک لاکھ اموات پر قابو پاگئے تو یہ ہماری کامیابی ہوگی۔‘‘ ایسے ہی کچھ خدشات دوسرے ممالک کے سربراہان کے بھی ہیں۔ فی الحال امریکا اور یورپ اس وائرس کی تباہی کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

چین سے پروازیں بند نہ ہونے پر یہ وائرس تیزی سے دنیا کے دوسرے حصوں میں پھیل گیا۔ کچھ تو سمندری اور زمینی راستوں سے بھی کام دکھا گیا۔ چین کے بعد سب سے پہلا نشانہ یورپ تھا اور یورپ میں ملک اٹلی، جہاں مجموعی طور پر زیادہ اموات ہوئیں، پھر فرانس، اسپین اور دیگر یورپی ممالک اس کی زد میں آئے۔ یورپ کے بعد امریکا اور دیگر ممالک اس کا نشانہ بنے۔ کوئی براعظم محفوظ نہیں۔

کورونا کو محدود کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وائرس سے پاک رہنے کےلیے سماجی دوری اور جراثیم کُش ادویہ، اسپرے کا استعمال ہے۔ اس مقصد کےلیے لاک ڈاؤن بہترین حل ہے، لاک ڈاؤن سے وائرس تو پھیلنے سے رک جائے گا لیکن اس کا طویل مدتی اثر معاشی بدحالی ہے جو ابھی باقی ہے۔ کورونا کے مریض ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن دنیا کی معیشتوں کو واپس آنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔

جب یہ وبائی بیماری شروع ہوئی تو تمام شعبوں کو مالی لحاظ سے بری طرح متاثر کیا۔ رپورٹس کے مطابق چینی معیشت 40 فیصد سکڑ کر رہ گئی ہے۔ چین پیداوار، نمو اور خدمات میں 40 فیصد سے زیادہ سکڑ گیا ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام بڑی کاروباری کمپنیوں کے چین میں دفاتر اور پیداواری یونٹ موجود ہیں لیکن سبھی بند پڑے ہیں۔

چین کو ’’دنیا کی فیکٹری‘‘ کہا جاتا ہے۔ کورونا نے اس فیکٹری میں بریک لگا دی ہے۔ چینی پیداوار، درآمدات اور برآمدات نے عالمی جی ڈی پی کو آگے بڑھایا۔ لاک ڈاؤن، کھپت اور صنعتی سرگرمیوں میں تبدیلی کے نتیجے میں دنیا متاثر ہوئی ہے۔ صرف چین میں مجموعی طور پر تقریباً 25 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ برطانیہ کے پورے سالانہ جی ڈی پی کے برابر ہے۔ پروڈکشن لائنز، پروڈکٹ لانچ، ایکسپورٹ آرڈرز سب تاخیر کا شکار ہوگئے ہیں۔ چین کی حکومت کو بڑی کمپنیوں کو بچانے کےلیے لیکویڈیٹی انجکشن لگانے پڑ رہے ہیں۔ کچھ تاجر پارٹیاں تو دیوالیہ پن کے قریب پہنچ رہی ہیں۔ معاشی لحاظ چین کا ایک ہی مقصد دکھائی دیتا ہے کہ ملازمت کے نقصانات کو بچانا اور مارکیٹ کو زیادہ سے زیادہ سطح پر چلانا ہے۔

امریکا نے اپنے اور معیشت کو بچانے کےلیے 2 ٹریلین ڈالرز کا پیکیج دیا ہے، اس کے باوجود وہاں ایک کروڑ افراد اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔ برطانیہ، یورپ، بھارت اپنی معاشی سرگرمیاں چلانے کےلیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں۔ بلوم برگ کی تازہ رپورٹ کے مطابق کورونا وبا آئندہ دو سال میں عالمی معیشت کے 5 ہزار ارب ڈالر کھا جائے گی۔ 2 سال کا خسارہ جاپان کی سالانہ پیداوار سے زیادہ ہوگا۔ دنیا 1930 کے بعد گہری کساد بازاری کے دور میں ہے۔ 2022 تک دنیا کی معیشت معمول پر آنے کے قابل ہوگی۔

اقوام متحدہ کے مطابق کورونا کی وجہ سے 900 ملین بچے اسکول نہیں جا رہے۔ کورونا وائرس کے آتے ہی تمام ممالک نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں بند کردی ہیں۔ اس حوا لے سے معاشرتی لاگت ابھی زیر غور ہے۔ فضائی سروسز اور دنیا بھر کی سیاحت کی صنعت نے فروخت اور محصولات میں 80 فیصد سے زیادہ کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دنیا کی 70 فیصد فضائی کمپنیاں مستقبل قریب میں بحال ہوتی نظر نہیں آتیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ ممالک دوسرے ممالک سے سفری پابندیاں نافذ کررہے ہیں۔ پہلی بار امریکا نے یورپ سے فضائی رابطے منقطع کیے ہیں۔ یہ کب تک منقطع رہتے ہیں؟ اس کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ لاک ڈاؤن اور حکومتی پابندیوں کی وجہ اسٹاک مارکیٹیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کورونا کے نتیجے میں عالمی جی ڈی پی میں تقریباً 2.7 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

دنیا اس وقت دو دھاری تلوار پر چل رہی ہے۔ اسے زندگیاں بھی بچانی ہیں اور معیشت بھی۔ کورونا نے انسانوں کے اس زعم کو ختم کردیا ہے کہ اس نے تمام وباؤں پر قابو پالیا ہے۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer