ملکی سیاسی ہنگامہ آرائی اور گرما گرمی میں کبھی کبھار آپ کو ایسی بات مل ہی جاتی ہے جو تمام تر خشک کام کو کسی حد تک ترو تازہ کرنے کے کام آتی ہے ، کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا جب مارننگ شو کی اینکر انا یوسف نے اچانک ایسا سوال کیا جس کی میں توقع نہیں کر رہا تھا انہوں نے پوچھا کہ کیا مریم نواز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مقابلہ کر پائیں گی؟ سوال مجھ سے تھا تو میں نے ماحول کو خوشگوار اور مارننگ شو کے موڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ حسن کا مقابلہ تو مریم نواز جیت چکی ہیں پہلے اس پر بات کر لیتے ہیں جس کے بعد سیاست پر بات کی جائے گی ۔
میں نے کہا کہ عمران خان پاکستان کی سب سے مقبول کھیل کرکٹ کے سٹار تھے ،حسین تھے ،جوان تھے ، ایچی سن کالج اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے گھرانہ کرکٹ اور سول بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں یکساں اثر پذیر تھا اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے اس کرکٹر نے یونانی دیوتا زیوس (دیوتاؤں میں سب سے عظیم دیوتا تھا۔ اساطیر میں اِسے دیوتاؤں کا بادشاہ تصّور کیا جاتا تھا۔ یہ یونانی دیوتاؤں میں سب سے طاقتور اور کوہ اولمپس کا حاکم تھا۔ اِس کے قبضے میں دیگر قُوّتیں تھیں جن میں سرِفہرست، طوفان اور آسمانی بجلی تھیں۔)کی شکل اختیار کرلی اور یوں اس دیوتا کی مقبولیت خواتین تو خواتین مردوں میں بھی یکساں ہوگئی ،کرکٹ ورلڈ کپ میں فتح ملی تو یہ طاقتور دیوتا ناقابل تسخیر سمجھا جانے لگا ، عمران خان نے کرکٹ چھوڑی تو شوکت خانم کینسر ہسپتال کا کام شروع کیا اور یوں لوگوں نے اس نیک مقصد کے لیے تن من دھن نچھاور کردئیے۔
اپنی مقبولیت اور آنے والے فلاحی پیسے کو دیکھ کر عمران خان نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور یوں وہ اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ، وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے عمران خان نے اگر غلط فیصلے بھی کیے تو اُن کی محبت میں گرفتار لوگوں نے اسے بھی اُن کی کارکردگی جانا سوشل میڈیا پر یہ کہاوت تو عام ہے کہ عمران خان گوبر کو کھیر کہیں گے تو لوگ اسے کھیر سمجھ کر ہی کھائیں گے بلکہ کچھ کی کھیر میں سے بادام اور کاجو بھی نکل آئیں گے اپنے تین سالہ دور اقتدار اور بار بار کے یوٹرنز نے بھی ان کی مقبولیت کو کچھ خاص کم نہیں کیا اور وہ آج بھی پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے دعویدار ہیں ۔
اب آتے ہیں اُن کی مدمقابل مریم نواز کی جانب جن کی سیاست میں انٹری اچانک ہوئی اپنی والدہ کی وفات پر خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست سے انتخاب لڑا لیکن عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کلٹ نے انہیں اپنے والد کے ساتھ الیکشن سے تین روز قبل ہی ایک معمولی کیس میں نااہل قرار دیا اور یوں یہ 2018 ءکے انتخابات میں بھی حصہ نہ لیں سکیں اپنے بھائیوں کے بیرون ملک سکونت کے باعث اپنے والد کی سیاسی وراثت کو سمبھالنے کے لیے مریم نواز شریف نے باقاعدہ سیاست کا آغاز کیا ،مسلم لیگ ن کے حلقوں میں انہیں حسن و محبت کی یونانی دیوی وینس سمجھا جانے لگا ایفرودیت (رتی؛ کام دیوی؛ یونان کی حسن و محبت کی دیوی تھے؛ رومیوں نے اسے زہرہ (وینس) کہا ہے۔)
اپنے چچا میاں شہباز شریف اور چچیرے بھائی حمزہ شہباز شریف کے ساتھ سیاست میں کام کرنا اس خاتون کے لیے آسان نہیں تھا لیکن اپنے باپ کی عدم موجودگی اور عمران حکومت کی جانب سے باہر جانے پر لگائی جانے والی پابندی نے مریم نواز کو سیاست کے وہ اسرار و رموز سکھا دئیے جو وہ عملی سیاست میں سیکھتے سیکھتے بوڑھی ہوجاتیں لیکن نہ سیکھ پاتی ، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے اپنی عدم موجودگی میں مریم نواز کا درست انتخاب کیا اور یوں وہ پارٹی کو منظم کرنے کے لیے چیف کوارڈینیٹر بن گئیں اور جس دن سے اُنہوں نے یہ عہدہ حاصل کیا ہے وہ چین سے نہیں بیٹھیں ۔
مقابلہ اب دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جہاں ایک دیوی کا مقابلہ 72 سالہ بوڑھے دیوتا کے ساتھ ہے ، مریم نواز وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مہنگائی سے تنگ عوام سے مخاطب ہوتی ہیں ظاہر ہے یہ ایک مشکل کام ہے کہ کس طرح وہ اس مہنگائی کا دفاع کریں لیکن اس کے باوجود مریم نواز ہر آنے والے جلسے میں پہلے سے زیادہ کراؤڈ لانے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں جبکہ اُن کا مدمقابل گھر سے باہر نکلنے کی ہمت بندھا نہیں پارہا ۔
عمران خان ، مریم نواز کے مقابلے میں ہر آنے والے دن میں شکست کھاتے نظر آتے ہیں،مریم نواز سسٹم کو للکار رہی ہیں سسٹم کا حصہ ہوکر جبکہ پسپا ہوتے بوڑھے عمران خان جو کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھے اب آل پارٹیز کانفرنس میں جانے کو تیار ہیں، بار بار سب سے بات کرنے کو تیار ہیں کے بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ وہ کبھی آرمی چیف کو پکارتے ہیں اور کبھی عدلیہ کو ،انہیں ضمانت کے روپ میں گھر رہنے کی جو بھیک دی جارہی ہے اس کی بھی بھاری قیمت عدلیہ جیسا ادارہ چکا رہا ہے ۔ ان حالات میں آنے والے سیاسی منظر نامے میں مریم نواز ایک ابھرتی ہوئی سیاستدان بن رہی ہیں جنہیں اپنے والد میاں نواز شریف کی مکمل سپورٹ حاصل ہے جو تین مرتبہ کے وزیر اعظم پاکستان اور دو مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے عہدوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں حالات آنے والے دنوں میں کیا کروٹ لیتے ہیں؟ یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن مریم نواز وزارت عظمیٰ کی کرسی پر نظر رکھے میدان میں کودی ہیں جہاں انہیں اپنی پارٹی کے اندر سے اور عمران خان کی جارحانہ سیاست کا مقابلہ کرنا ہے ۔