نیشنل ڈائیلاگ کیوں ضروری ہے؟

نیشنل ڈائیلاگ کیوں ضروری ہے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اظہر تھراج | ملک میں ایک بار پھر نیشنل ڈائیلاگ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، نواز شریف اور مریم نواز کے علاوہ ن لیگ کی اکثریت ڈائیلاگ چاہتی ہے، پیپلزپارٹی دھرنے ،استعفے اور الیکشن بائیکاٹ سے دور بھاگتی نظر آتی ہے ساتھ ہی وفاق میں ڈیل کے تحت اپنا حصہ بھی چاہتی ہے،جے یو آئی (ف)اندرونی انتشار کا شکار ہے،اس جماعت کے ناراض ارکان اپنے سربراہ پر دبائو ڈال رہے ہیں،حکومت آہستہ آہستہ ٹریک پر آرہی ہے ،وفاقی وزرا نے اپوزیشن کے سنجیدہ اور پارلیمنٹ میں موجود افراد کو مذاکرات کی دعوت دی ہے،یہ نیشنل ڈائیلاگ کی بیل منڈھے چڑھے گی یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا،آخر اس نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ 


ہمارے ٹی وی چینلز پر روز ٹاک شوز ہوتے ہیں۔ روزانہ مسائل پر بحث ہوتی ہے۔ کچھ سہانے خواب دکھاتے ہیں تو کچھ بھیانک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ کچھ مہمانوں کو گتھم گتھا کرکے مزے لیتے ہیں۔ کچھ کے خیال میں اظہار کی آزادی نہیں، کچھ کے مطابق یہ حکومت تاریخ کی بہترین حکومت ہے، عمران خان قائداعظم کے بعد بڑے اور مخلص لیڈر ہیں۔ سوال پھر وہیں ہے کہ اتنی تگ و ود کرنے کے بعد ہمارے مسائل حل ہوئے؟ پاکستان کی حالت بدلی؟

حقیقت یہ ہے کہ اس تمام جدوجہد کے باوجود پاکستان کے بننے سے اب تک مسائل وہی ہیں۔ پاکستان کا 72 سالہ سفر ایک ’’رسک‘‘ کے تحت گزرا۔ 1947 میں جب اس کا جنم ہوا تو مفلوک الحال غریب کے بچے کی طرح تن پر کپڑے، پیٹ میں نوالے نہیں تھے۔ بچپن اور لڑکپن ایسے ہی گزر گئے بلکہ اس حال میں کئی لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں، جس کے زخموں سے آج بھی خون رس رہا ہے۔ پاکستان کی پیدائش پر جہاں خوشیاں منائی گئیں تو وہیں لاکھوں قربانیاں بھی دی گئیں۔ کئی سہاگ اجڑے تو لاکھوں یتیم ہوئے۔ کئی بے گھر ہوئے، دربدر ہوئے۔ بچپن سے لے کر آج تک آئین کی زنجیروں میں جکڑنے کی کئی بار کوشش کی گئی۔ پہلے انگریزوں کا قانون لاگو کیا گیا۔ پھر 1949 میں قرارداد مقاصد کے نام پر’’مسلمان‘‘بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ بات جب سیکولر طبقے کو ہضم نہ ہوئی تو وہ اسے لادین ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ 1952 اور 1956 میں ایک بار پھر زنجیریں پہنائی گئیں، جو دو سال بعد ہی ٹوٹ گئیں۔

1962 اور 1973 میں بھی آئین، آئین کا کھیل کھیلا گیا، جن میں اب تک کئی ترامیم کردی گئیں لیکن آج تک یہ آئین اپنی روح کے حساب سے کبھی نافذ نہ ہوسکا۔ پاکستان پر طرز حکمرانی کے بھی طرح طرح کے تجربے کیے گئے۔ کبھی جمہوری نظام لایا گیا تو کبھی فوجی چھتری تلے پناہ ڈھونڈی گئی۔ کبھی اسلامی سوشلزم کا سہارا لیا گیا تو کبھی خودساختہ شریعت کا۔ کبھی تو بندوق کے ذریعے اپنا حکم چلانے کی کوشش کی گئی۔

اس وقت پاکستان 72 سال کا ہوگیا ہے لیکن آج بھی غریب ہے، آج بھی کمزور ہے۔ بھلا کیوں؟ کبھی سوچا اس کے ساتھ جنم لینے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ 2 سال بعد آزاد ہونے والا چین، جس کا دنیا مذاق اڑاتی تھی، جو پاکستان سے کئی درجے کمزور تھا۔ کل تک ہم سے بھیک مانگتا تھا۔ آج دنیا کی معیشت پر راج کرتا ہے۔ دنیا کے سب وسائل اس کے قدموں میں ہیں۔ کل دنیا جسے گونگا سمجھتی تھی آج وہ بولتا ہے، دنیا سنتی ہے۔ اور ہم سندھ میں قوم پرستی کا زہر اگلتے رہے۔ بلوچستان میں آزادی کے نام پر گلے کاٹتے رہے۔ فاٹا میں مذہب کے نام پر بارود بچھایا گیا۔ مسجدوں، امام بارگاہوں میں جہاں محبت کے پھول ملتے تھے وہاں نفرت بیچی گئی۔ مذہب کو تجارت بنایا گیا۔

1947 سے قبل ایک گورے انگریز کا غلام تھا، آج کئی کالے انگریزوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ معاشی طور پر سرمایہ دار گلا گھونٹ رہا ہے تو جاگیردار غریب کے بچوں کو اپاہج کر رہا ہے۔ ایسے گھناؤنے کام کیے جارہے ہیں کہ ’ پاکستان‘ کو اپنا منہ چھپانا پڑ رہا ہے۔ یہاں آزادی ہے تو سود خوروں کو ہے۔ رشوت عام ہے۔ بھتہ خوروں، بدعنوانوں، جھوٹے، منافقوں، ذخیرہ اندوزوں، دہشتگردوں، کام چوروں، خوشامدی سیاستدانوں کو آزادی ہے۔ یہاں کی صحافت تجارت بن چکی۔ یہاں علم کی بولی لگتی ہے اور قلم بکتے ہیں۔ سیاست بدنام ہوچکی، غیرت بے نام ہوچکی۔ یہاں کی تجارت پیشہ پیغمبری نہیں رہی۔ تھانوں میں جائے تو انسان کپڑے بھی اتروا کر نکلتا ہے۔ یہاں کے پولیس والے سگریٹ کی ڈبیا کی خاطر اپنا ایمان فروخت کردیتے ہیں۔ استاد، استاد نہیں رہا اور شاگرد، شاگرد نہیں رہا۔ علم دینے والے صنعتکار بن گئے اور علم حاصل کرنے والے سردار بن گئے ہیں۔ یہاں غریبوں کے بچے راتوں کو بھوکے سوجاتے ہیں اور بڑے بڑے گھروں اور توندوں والے پوچھنا تک گوارہ نہیں کرتے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لیا لیکن اسلام نام کی کوئی چیز لاگو نہیں کی۔ اسلامی اصولوں، اخلاقیات تک نہ اپنائی گئیں۔ مذہب کو سیاست سے دور رکھنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ مذہبی ووٹ، مذہبی جماعتیں جو ایک حقیقت ہیں ان کو مسجد اور مدرسے تک محدود رکھا گیا۔ جمہوریت ہمارا سیاسی نظام ہے لیکن یہی نظام کئی بار لپیٹا گیا۔ آئین معطل کیا گیا۔ بولنے، لکھنے پر پابندی لگی۔ 33 سال تک ملک کو بے آئین رکھا گیا۔ جن کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا، وہ حکومت کرتے رہے۔ جو جمہوری حکومتیں آئیں بھی تو ان کو بھی سازش کے تحت چلنے نہیں دیا گیا۔ ہر جمہوری حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا گیا۔ ہمارے دشمن بھی کہتے ہیں کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں بات کس سے کی جائے، مذاکرات کس سے کریں، پتا نہیں کہ اصل حکمران کون ہیں؟

ان تمام الجھنوں، تمام مسائل سے چھٹکارا پانے کا حل ڈھونڈنا پڑے گا، ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ ہمیں نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، وگرنہ کھینچا تانی میں ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے۔ دوسروں کے گھروں میں گھسنے کے بجائے اپنے گھروں کی فکر کرنا ہوگی۔ دوسروں پر اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈالنے کے بجائے اپنے فرائض پہچاننا ہوں گے۔ ہر طبقے کو اس کے حق کا تحفظ اورعزت دینے کی ضرورت ہے۔ مذہبی ووٹ ایک حقیقت ہے، اسے نماز اور واعظ تک محدود کرکے حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔ ان کے ووٹ کسی اور کی جھولی میں ڈالے جاتے رہے تو یہ لوگ مسجدوں، مدرسوں سے نکل کر سڑکوں پر آتے رہیں گے، دہشت گردی میں ایندھن بنتے رہیں گے۔ چھوٹے صوبے، قوم پرست جماعتیں اپنی عزت چاہتی ہیں ان کو عزت دی جائے۔ ان کو بھی اپنے حق کی ضرورت ہے۔ فوج کے بغیر ملک ٹوٹ جاتے ہیں، سرحدیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں۔ فوجی سرحدوں اور بیرکوں میں ہی اچھے لگتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کے اقتدار کا شوق اور سیاستدانوں کی نالائقیاں ان کو بھی اقتدار میں آنے کا جواز بخشتی ہیں۔ ان کی بھی سننی ہوگی۔ ان کا خیال بھی ضروری ہے۔

جوڈیشری ریاست کا مضبوط ستون ہے، اس کے بغیر معاشرے میں انصاف قائم نہیں ہوسکتا۔ جب عدالتی فیصلے بے وقعت ہوجاتے ہیں، آئین اور قانون ردی کی ٹوکری میں جاتا ہے تو یہ بھی فعال ہوجاتے ہیں۔ جوڈیشل ایکٹو ازم کے نام پر ایسے فیصلے کردیے جاتے ہیں جس کے نتائج کئی سال تک بھگتنا پڑتے ہیں۔ایک سابق چیف جسٹس نے مل بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا، نئے عمرانی معاہدے کی بات کی تھی۔ ان کی بات مانی جائے۔ نیا عمرانی معاہدہ ہو جس میں ہر طبقے کو نمائندگی دی جائے۔ نئے عمرانی معاہدے کے بغیر پاکستان میں کوئی نظام چلتا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی کسی ایک کی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہیں۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer