آزربائیجان کے صدر نے وزیراعظم کو بھائی اور قریبی دوست قرار دیدیا

President Azerbaijan
کیپشن: President Azerbaijan
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (سٹی42)  آزربائیجان کے صدر  کا کہنا ہے کہ خطے کی آزادی کے موقع پر پاکستان نے ہمارا ساتھ دیا، پاکستان نے ہمیشہ ہماری حمایت کی ہے۔

آزربائیجان کے صدر الہام علیوف نے ”وسطی راہداری کے ساتھ:جیوپالیٹکس، سکیورٹی اینڈانوائرنمنٹ“ کے موضوع پر منعقدہ عالمی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف اور پاکستان کو بھائی اور قریبی دوست قرار دیا۔

 صدرآزربائیجان الہام علیوف نے کہا کہ  گزشتہ چند ماہ کے دوران میری دوبار وزیراعظم پاکستان شہبازشریف سے بہت ثمرآورملاقاتیں ہوئیں، ملاقاتوں میں تبادلہ خیال کیا گیا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان موجود دوستی، بھائی چارے اور تعاون کو کیسے وسعت دی جائے۔

صدر الہام علیوف نے کہا کہ پاکستانی چاول کی آزربائیجان درآمد پر پانچ سال کی ٹیکس چھوٹ کا فیصلہ وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ ہونے والی دو ملاقاتوں میں بات چیت کا نتیجہ ہے،  جب ہمارے برادر ملک سے ہمیں اعلیٰ معیار کا چاول مل سکتا ہے تو ہم کسی اور جگہ سےکیوں منگوائیں۔

صدرآزربائیجان نے کہا کہ گوادر بندرگارہ خطے کو جوڑنے کا بہت بڑا موقع فراہم کرتی ہے، اس بندرگاہ کو ہمارے انفراسٹرکچر سے جوڑنا کوئی بڑی بات نہیں، خطے کو باہم ملانے سے تجارت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے لیکن اس کے لئے تمام ممالک کو مل کر مخلصانہ تعاون کی بنیاد رکھنا ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے شکرگزار ہیں کیونکہ  آزربائیجان اور رومانیہ کے کشیدہ تعلقات کے تناظر میں قبضے اور جنگ کے دوران اور پھر ہمارے خطے کی آزادی کے موقع پر پاکستان نے ہمارا ساتھ دیا، پاکستان نے ہمیشہ ہماری حمایت کی ہے، آزربائیجان کے عوام پاکستان کی جانب سے کی جانے والی اس سیاسی واخلاقی حمایت کی بے پناہ قدر کرتے ہیں۔

سیمینار کے موقع پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے ’سینٹر فار گلوبل اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز‘(سی۔جی۔ایس۔ایس) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد تیمور اکرم کے پاکستانی چاول کی درآمد پر آئندہ پانچ سال تک آزربائیجان کی جانب سے ہر طرح کے ٹیکس استثنٰی اور جنوبی ووسطی ایشیاکو جوڑنے کے حوالے سے سوال پر آزربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران میری دوبار وزیراعظم پاکستان شہبازشریف سے ملاقات ہوئی ہے، ملاقات میں ہم نے مجموعی طور پر دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کیا ۔

آزربائیجان کے صدر نے کہاکہ میری وزیراعظم شہبازشریف سے بات چیت ہوئی ہے کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان معاشی وتجارتی تعلقات کو مزید فروغ کیسے دے سکتے ہیں، اس میں مزید اضافہ کیسے اور کس طرح کیاجاسکتا ہے،ہم نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو تیز کرنے اور بڑھانے کا جو فیصلہ کیا تھا، یہ اسی کا نتیجہ ہے، میری وزیراعظم شہبازشریف سے بات ہوئی ہے کہ دونوں ممالک کون کون سی اشیاء ایک دوسرے کو بھجواسکتے ہیں۔

الہام علیوف نے کہاکہ جب سے کورونا وبا ختم ہوئی ہے اور عالمی سطح پر سفرکا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے، میں نے بہت وقت وسط ایشیائی ریاستوں کے دوروں میں صرف کیا ہے، اپریل کے بعد سے میں نے ازبکستان کے تین سرکاری دورے کیے، اگست میں قازقستان کے صدر سرکاری دورے پر یہاں تشریف لاچکے ہیں، اس سے پہلے میں ترکمانستان گیا تھا، اب میرا ارادہ تاجکستان کے دورے کا ہے۔

انہوں نے کہاکہ مختلف عالمی ایونٹس کے موقع پر دیگر سربراہان سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں، جن سے میں نے سکیورٹی کے مسئلے پر بات کی ہے، یہ مسئلہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے، جسے دوطرفہ اور عالمی سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس معاملے میں کیسے مل کر کام کرسکتے ہیں، دنیا تبدیل ہوگئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ عالمی قوانین کی موجودگی میں ایک مضبوط آرمی اور اچھے اتحادی میسر ہوں ، تب ہی آج کی دنیا میں ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔

صدر الہام علیوف نے کہاکہ علاقائی سلامتی کے بہت امکانات ہیں جس پر عمل کرکے ہم امن کو یقینی بنا سکتے ہیں، اگر یہ کام ہم سب مل کر تے ہیں تو  اس کے بہت امکانات ہیں کہ ہم اپنا یہ ہدف حاصل کرلیں۔

انہوں نے کہاکہ آزربائیجان میں انفراسٹرکچر کے سارے منصوبے تیار ہیں ، ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ریل اور سڑک کے تمام منصوبے مکمل ہوچکے ہیں، ہوائی اڈے، بندرگاہیں سب تیار ہیں، اس خطے کے تمام ممالک میں یہی انتظام ہونا چاہیے تاکہ راہداری قائم کرنے کا خواب پورا ہوسکے، ہمیں اس مقصد کے حصول کے لئے مثبت امکانات نظر آرہے ہیں۔

الہام علیوف کا کہنا تھا کہ چین،کرغزستان اور ازبکستان میں ریل روڈ کی تعمیر پر حال ہی میں معاہدہ ہوا ہے جو بہت عرصے سے رُکا ہوا تھا۔ اب ضرورت ہے کہ کسیپئن کی طرف تجارتی سامان آئے۔ چین اس منصوبے کی تعمیر میں مالی تعاون کررہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ٹریڈ ٹیرف کے مسئلے کو ہم حل کرسکتے ہیں، قواعد وضوابط اور قوانین پر تعاون ہوسکتا ہے بس ہم سب کو ایک ٹیم ورک کی ضرورت ہے، مثال کے طورپر ہم نےآذر بائیجان، ترکی اور قازقستان میں فعال تعاون کے لئے فارمیٹ تیار کیا ہے، خارجہ اور ٹرانسپورٹ کے وزرا کا پہلا اجلاس کئی ماہ پہلے منعقد ہوچکا ہے، اب ہمارے پڑوسی جارجیا نے دوسرے اجلاس کی دعوت دی ہے، اب یہ چار ممالک کا اجلاس ہوگا کیونکہ ہم سب آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں،ہم سب ایک پالیسی اختیار کریں گے، کیونکہ اگر پالیسی ایک نہیں ہوگی تو کوئی بھی اس کے ثمرات حاصل نہیں کرپائے گا۔

 صدرآزربائیجان  نے کہاکہ ہم نے اپنے ملک میں ٹرانسپورٹ اداروں کو یکجا کرکے کارپوریٹ مینجمنٹ لے آئے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، ہم نے غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے ’وَن۔ ونڈو‘ بنادی ہے۔ اب بیورکریٹک رکاوٹیں کم سے کم آئیں گی، جس سے دیگر ممالک کی کمپنیوں کے لئے راستہ استعمال کرنا آسان ہوگیا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ آرمینیا کے پاس جغرافیائی یا کوئی اور اہلیت نہیں کہ وہ اس منصوبے کو متاثر کرسکے، آرمینیا ایک لینڈ لاک ملک ہے لیکن اس کے ٹرانسپورٹ کا نظام فرسودہ اور پرانا ہوچکا ہے، ہم روس سے بھی بات چیت کررہے ہیں۔ ایران بھی خطے کو جوڑنے والے منصوبے کے حق میں ہے۔

 صدرآزربائیجان  نے کہاکہ  اگر ہم ایک پلیٹ فارم بنائیں اور باہمی مفاد میں مخلصانہ تعاون کی بنیاد رکھ دیں تو تمام فریقین اس میں شامل ہوں گے۔