ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ میں نور مقدم قتل کیس میں ملزمان ذاکر جعفر اور عصمت جعفر کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل وکیل شاہ خاور نے موقف اپنایا کہ صدارتی آرڈیننس کے تحت نور مقدم کیس کا ٹرائل سپیشل کورٹ میں ہونا چاہیے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ قانون پروسیجرل ہوتا ہے، آرڈیننس کی مدت اب ختم ہو چکی ہے۔ کیس کا ٹرائل سپیشل کورٹ کے نہیں بلکہ سیشن کورٹ کے طور پر ہونا ہےعدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ کیا کہتے ہیں کہ ایک بار کی سپیشل کورٹ ہمیشہ کے لیے سپیشل کورٹ ہے، دلائل سے لگتا ہے کہ ٹرائل کو تاخیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر ایڈووکیٹ شاہ خاور نے موقف اپنایا کہ انکا قطعاً مقصد کیس کو تاخیر کا شکار کرنا نہیں ہے۔وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر وقوعہ کے روز اپنے والدین سے مسلسل رابطے میں تھا، چالان پیش ہو چکا ہے، فرد جرم عائد ہونا باقی ہے۔ پراسیکیوشن نے 18 گواہ بنائے ہیں جن میں سے تین چار اہم گواہ ہیں، جلد ٹرائل مکمل ہو گا۔شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات پیش کیے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’کال ڈیٹا ریکارڈ 18 سے 20 جولائی کا ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ ’اندازاً قتل کا وقت کیا ہے جس پر ایڈووکیٹ شاہ خاور نے بتایا کہ ’شاید سوا سات سے ساڑھے سات بجے کے درمیان یہ واقعہ ہوا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق نور مقدم نے 6:35 پر چھلانگ لگا کر جان بچانے کی کوشش کی۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ اس وقت نور مقدم زندہ تھیں۔ عدالت نے ایک بار پھر استفسار کیا کہ پولیس کو واقعہ کس نے اور کتنے بجے رپورٹ کیا جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ ایک زبیر نامی شہری نے 9:45 پر پولیس کو رپورٹ کیا۔ پولیس دس بجے تک موقع پر پہنچ گئی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت تھراپی ورکس والے وہاں موجود تھے۔جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ تھراپی ورکس والوں اور درخواست گزاروں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ ظاہر جعفر کی والدہ تھراپی ورکس والوں کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرتی رہی ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
یاد رہے کہ 20 جولائی کی شام اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر کی 28 سالہ نور مقدم کو گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا تھا جس کا مقدمہ تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا تھا۔