پنجاب حکومت بمقابلہ احتجاجی ملازمین

پنجاب حکومت بمقابلہ احتجاجی ملازمین
کیپشن: City42- Punajb Govt
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) لاہور شہر میں اس وقت ہر جانب سڑکوں پر سرکاری ملازمین سراپا احتجاج نظر آتے ہیں ۔ڈاکٹرز، نرسیں، ایپکا، کالج لیکچرارز، سوئی گیس ، سول سیکرٹریٹ سمیت تقریباَ سارے محکموں کے ملازمین اس وقت حکومت سے ناخوش ہیں۔ یہ تمام ملازمین کسی نہ کسی طرح حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے رہتے ہیں اور جب بجٹ قریب آتا ہے تو اس احتجاج میں شدت آ جاتی ہے ۔ اس وقت ان مظاہروں کے دو ایشوز ہیں ایک عارضی بھرتی اور اسے مستقل کرنا اور دوسرا ملازمین کی کم تنخواہ، اس وقت صوبہ پنجاب میں گورننس کا ایک ایشو ہے اور دوسری جانب ملازمین کی تنخواہ بہت کم ہے اور سیاسی بھرتی زیادہ ہے جس سے محکموں میں ایک غیر متزلزل صورت حال ہے۔

حکومت جان بوجھ کر کنٹریکٹ، ایڈہاک ، ورک چارج اور ڈیلی ویجز پر ملازمین کو بھرتی کرتی ہے جس سے یہ ملازمین سال کے آخر میں جب بجٹ قریب ہوتا ہے تو سڑکوں پر آ جاتے ہیں اور حکومت بھی صرف انہیں کی سنتی ہے جو احتجاج کرتا ہے ڈاکٹروں اور نرسوں نے ہسپتال بند کئے تو حکومت نے انہیں مستقل کر دیا جس کا احتجاج کامیاب ہوگا اسی کی سنی جائے گی۔ اس وقت ملازمین کی ایک بہت بڑی تعداد کا مسئلہ بے قاعدہ بھرتی ہے۔ حکومت کو پہلے دن سے ہی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ کس قسم کی بھرتی چاہتی ہے تاکہ ملازمین دل جمعی سے کام کریں نہ کہ جب الیکشن قریب آئے تو وہ احتجاج کریں اورحکومت کوپھرمستقل کرنے کا خیال آئے وہ بھی صرف اپنے ووٹ بینک کے لئے۔ اس طرح کے اقدام سے یہ تاثر دیا جا تا ہے کہ حکومت نے ان بے قاعدگی سے بھرتی ہونے والے ملازمین کو مکمل سپورٹ کیا ہے۔

 کالج ٹیچرز اس وقت بڑی حد تک اکیڈمیوں میں ہوتے ہیں جبکہ اپنے کالجوں کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ کالج اساتذہ آٹھ گھنٹے وقت دینے کی بجائے ایک یا دو پریڈ پڑھا کر پرائیویٹ اکیڈمیوں میں چلے جاتے ہیں۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن بھی ان کالج ٹیچرز کے سامنے بے بس ہوچکا ہے لیکن سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نبیل احمد اعوان کو کسی بھی صورت ان ہڑتالی کالج ٹیچرز کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے۔ اگر ایک کلرک، نرس اور ڈاکٹر آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے تو ان کالج ٹیچرز سے کیوں آٹھ گھنٹے کام نہیں لیا جاتا ۔ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نبیل احمد اعوان پنجاب کے واحد سیکرٹری ہیں جو اپنے دفتر کے باہر سائلین کو وقت دینے کے بارے میں لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ فلاں وقت اور فلاں دن سیکرٹری ہائر ایجوکیشن سائلین اور عوام کے لئے اپنے دفتر میں موجود ہونگے اور اس وقت وہ دفتر میں اجلاس کریں گے اوریہ اپنی مثال آپ ہے۔

حکومت پنجاب کو اب یہ فیصلہ اور قانون بنانا ہوگا کہ سرکاری ملازمین کی بھرتی کس طرح ،کس قانون، کس پالیسی اور کس نظام کے تحت کی جائے۔ شہر میں احتجاج کرنے والے ملازمین کا دوسرا بڑا ایشو تنخواہوں کا ہے۔ حکومت جب تک احتجاج نہ کیا جائے تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کرتی ہے۔ اس سے قبل پے کمیشن کام کرتا تھا جو سارا سال تنخواہوں اور افراط زر اور تفریط زر ، مہنگائی، اور اشیاءکی قیمتوں کا جائزہ لیتا تھا اور سال کے آخر میں بجٹ کے قریب حکومت کو تمام ڈیٹا مہیا کرتا تھا کہ کس شرح سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور کس شرح سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے لیکن اب حکومت پے کمیشن کی سفارشات پر عمل کم کرتی ہے اور دھرنے اور احتجاج کی آواز زیادہ سنتی ہے۔ سوئی گیس کے ملازمین نجکاری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ایپکا ملازمین ٹائم سکیل پروموشن، تنخواہوں میں اضافہ اور ریگولر کرنے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ سول سیکرٹریٹ ایمپلائز ایسوسی ایشن یوٹیلیٹی الائونس اور دیگر سیکرٹریٹ الائونس کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔

 سول سیکرٹریٹ ڈرائیورز ایسوسی ایشن اپ گریڈیشن کے لئے احتجاج کر رہے ہیں ۔ لاہور شہر میں پنجاب سول سیکرٹریٹ کے باہر شاید ہی کوئی دن ایسا ہوگا جس دن کوئی مظاہرہ کرنے والانہ ہو۔ اب یہ گیندحکومت کی کورٹ میں ہے کہ وہ ان مظاہرین سے نمٹنے کے لئے ایک جامع پالیسی بنائے اور ایک تو تمام قسم کی بھرتی سیاسی بنیادوں کی بجائے میرٹ پر اخبار میں اشتہار دے کر کی جائے اور یہ بھرتی مستقل بنیادوں پر کی جائے تاکہ کل کلاں کوئی احتجاج نہ کر سکے اور دوسرا تنخواہوں میں اضافے کے لئے دوبارہ سے پے کمیشن کو فعال کیا جائے ،خاص طور پر گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کے وقت مہنگائی کو بھی سامنے رکھا جائے۔ پنجاب میں کمپنیوں، پراجیکٹ سمیت مختلف اداروں کے نام پر لاکھوں روپے کی تنخواہوں کا سلسلہ بند کیا جائے اورسب کے لئے تنخواہوں کے یکساں مواقع ہوں اورصرف اورصرف یکساں نظام کے تحت ہی بھرتی ہو۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر