(سیمل ہاشمی)آج کل احتساب کا بہت شور ہے اوراحتساب کا معنی ہے حساب لینا، یعنی اگر کوئی اقتدار کے مزے لوٹتا رہا ہے تو اس سے قومی دولت کے خرچ کرنے کی تفصیلات جاننا اور بے قاعدگی کی صورت میں اسے سزا دینا اور عبرت کا نشان بنا دینا احتساب ہے۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ آنے والے حکمران یا صاحب اقتدار قومی دولت لوٹنے اور ہڑپ کرنے کی جرأت نہ کر سکیں۔احتساب کا سب سے خوبصورت ماڈل ہمارے نبی اکرم نے پیش کیا اور جب پیارے نبی اپنی جان اللہ کے حضور پیش کر رہے تھے تو انہوں نے اپنے خطبے میں فرمایا تھا ”لوگوں میرا وقت آخر آ پہنچا ہے، چاہتا ہوں کہ تم سے کہوں کہ میرا احتساب کرو۔
اگر کسی کو میرے کسی عمل کا بدل لینا ہے تو لے لے اگر میں نے کسی کو برا بھلا کہا تو وہ آئے اور مجھے سخت سخت کہہ لے جس کسی کا قرضہ ہے وہ مجھ سے وصول کر لے، کوئی یہ نہ سوچے کہ بدلہ لینے سے میرے دل میںکوئی برا خیال پیدا ہو گا۔ الحمدللہ میں بغض اور کینے سے محفوظ ہوں، کسی کا مجھ پر حق ہے تو لے لے۔ کوئی زیادتی کوئی طرف داری کوئی ناانصافی میں نے کی ہو تو مجھے بتائے اور معاف کر دے کہ میں اپنے رب کے پاس اطمینان سے جا سکوں۔“ آنحضرت کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنے پہلے خطبے میں خود احتسابی کی بات کی تھی۔ حضرت عمرؓ کو تو بھرے مجمع میں پوچھ لیا گیا تھا کہ آپ دراز قد کے ہیں، یہ اتنی بڑی چادر کہاں سے لے لی۔
ایک مسلمان کے لیے یہ وہ رول ماڈل ہیں جن کی پیروی کر کے احتساب کیا جا سکتا ہے مگر افسوس! کہ یہاں تو احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔ ریاست مدینہ کے دعوے دار کس قدر تنگ نظری کی بات کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک نجی ٹیلی ویژن پر حکومت کے ایک رکن نے اپنے ضمیر کے مطابق اپوزیشن کے ایک رکن کو احتساب کے نام پر نشانہ بنانے کی مذمت کی اور اپنے ذاتی حوالے سے اپنے اپوزیشن رکن کی گواہی دی تو ابھی پروگرام ختم بھی نہ ہوا تھا کہ وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا اور اس رکن اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔کیا یہ احتساب ہے کہ منہ سے نکلے ہوئے الفاظ قانون ہوں اور مخالفت کرنے والے کی زبان بندی کر دی جائے۔ اگر یہی روش ہے تو پھر یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔
ایک ہی ملک میں دو قانون کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایک کے لیے قانون کی تشریح کچھ اور ہو اور دوسرے کے لیے اس کے معانی یکسر مختلف ہوں۔ ایک وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے چارجز ایک ہاﺅسنگ سکیم کے حوالے سے عائد ہوں اور کوئی ثبوت نہ ہو اور یہ کہ آپ نے یہ ٹھیکہ منسوخ کر کے من پسند فرم کو کیوں دیا؟ جس کے جواب میں وزیر اعلیٰ معترض ہوں کہ ایسا کرنے سے قومی خزانے کو 60ارب کی بچت ہوئی ہے لیکن ان کے جواب کو تسلی بخش قرار نہ دے کر مسلسل ریمانڈ لے کر انہیں پابندی سلاسل رکھا جائے جبکہ ایک دوسرے صوبے کے وزیر اعلیٰ پر مالم جبہ کی قیمتی زمین کی الاٹمنٹ کے الزامات عائد ہوں لیکن انہیں گرفتار نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر چلایا جائے تو اس کا مطلب تو یہی ہوا قانون کے دو معانی اور دو تشریحات ہیں۔
حکمران جماعت کے اہم رکن کو کرپشن کے الزامات میں نا اہل قرار دے دیا جائے تو بھی وہ حکومتی امور میں مداخلت کرتا نظر آئے، مخالفین میں سے لوٹے ڈھونڈ کر حکومتی حلقوں میں شامل کرائے، اس کے ایک اشارے پر وزراءکی تبدیلی ہو جائے، وزیر اعلیٰ کی تعیناتی ہو جائے، وفاق سے لے کر پنجاب تک میں تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں ان کا ایک بڑا کردار ہے بالخصوص آزادامیدواروں کو تحریک انصاف کا حصہ بنا کر تحریک انصاف کی پوزیشن کو بہتربنانے میں ان کا کلیدی رول نظر آتا ہے۔ پارٹی کے اکثر اراکین بھی ان سے نالاں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ہمشیرہ کو سینیٹ کا ٹکٹ جاری کروایا ہے۔ان کے کردار کو لے کر خاصی بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔کوئی پوچھنے والا نہ ہواور دوسری طرف عدالت میں جاری کرپشن کے کیس میں ملوث تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم کو زچ کیا جائے۔
احتساب عدالت سزا سنا دے اور ٹرائیل کورٹ ضمانت لے لے،سرکاری وکیل بھی تسلیم کرے کہ کرپشن کی رقم کا تعین کرنا مشکل ہے، پھر بھی سزا دینے کی استدعا کرے۔ پھر ایک صوبائی وزیر جو گزشتہ پندرہ برسوں سے کاروبار سے الگ ہو لیکن اپنے گھر بنی گالہ اور اپنی جماعت تحریک انصاف کے تمام جملہ اخراجات برداشت کرے۔ اسی دوران کئی ضمنی انتخابات لڑے اور اربوں روپے خرچ کر دے۔ اس سے پوچھا نہ جائے کہ بھائی آپ کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ تو یہ احتساب نہیں حمایت ہے۔ دوسری جانب جس کے خلاف ایک بھی ایف آئی آر نہ ہو اور اسے پرواز سے آف لوڈ کر دیا جائے تو یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔ایک حمایت ہی ہے کہ وزیر اعظم کی بہن دبئی میں اپنی جائیداد کو انکم ٹیکس کے گوشواروں میں ظاہر نہ کرے اور جون جولائی میں شروع کی جانے والی ایمنسٹی سکیم سے فائد ہ اٹھانے کا دعویٰ کرے لیکن اگر ایسا ہو تو وہ صرف اپنی جائیداد کا دو سے تین فیصد رقم ادا کر کے اپنی جائیداد کو ریگولرائز نہ کروائیں اور انہیں کوئی نا پوچھے اور اپوزیشن کی ترجمان حکومت کے لتے لے تو ان پر مقدمات بنانے کی دھمکی دی جائے تو کیا یہ احتساب ہو گا؟ایک اور کردار ہیں جنہوں نے سی ڈی اے اراضی پر تجاوزات کیں اور فارم ہا ﺅس پر غیر قانونی بیسمنٹ بنائی، 5 روز میں تجاوزات کا خاتمہ نہ کیا تو گرا دیں گے۔ ایک بے گناہ خاندان پر ظلم ڈھایا تو عدالت کی گرفت میں آئے اور وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا ورنہ تو عمران خان ان کی وکالت کرتے نظر آ رہے تھے۔پشاور میٹرو جس کی لاگت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، کیا اس منصوبے کا فرانزک آڈٹ ضروری نہیں؟ احتساب کی جیسی فضا آج چل رہی ہے ایسی ہی فضا گزشتہ ادوار میں بھی چلتی رہی ہے۔
گزشتہ منتخب حکومتوں اور آمروں نے اداروں کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کیا ہوتا تو آج ہمارے اداروں پر سوالیہ نشان نہ ہوتا۔ ویسی ہی غلطی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے احتساب کی فضا صرف سیاسی ہدف حاصل کرنے کا شاخسانہ نظر آرہی ہے۔وزیراعظم صاحب! اگر واقعی احتساب چاہتے ہیں تو پارٹیوں کی تفریق کئے بغیر ہر رنگ کی پارٹی کے شخص کو جو مطلوب ہو، کٹہرے میں لایا جائے۔ چاہے اپنی ہی پارٹی کا کیوں نہ ہو۔ ابھی عوام موجودہ حکومت پر اعتماد کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ یہ گزشتہ ادوار کی طرح لوگوں کو ہدف بنا کر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کریں گے بلکہ صدق دل سے سیاسی انتقام، پارٹی اور ذاتی مفادات کوپرے رکھ کر احتساب کے عمل کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔اگر موجودہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی تو اس میں او ر جنرل مشرف کے دور میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ بہت سے شکوک و شبہات جنم لیں گے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو حکومت سے عوام کا اعتماد جلد اٹھ جائے گا۔