مایوس ہوکر کرکٹ چھوڑنے والا کپتان کیسے بنا؟

مایوس ہوکر کرکٹ چھوڑنے والا کپتان کیسے بنا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42:مایوسی گناہ ہے ،یہ تو سب نے سنا ہے کچھ لوگ مایوس ہوکر ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں جو ان کیلئے شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔کچھ لوگ تو اتنے مایوس ہیں کہ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن سہیل اختر کے معاملے میں کچھ مختلف ہے۔

پی ایس ایل کی کرکٹ ٹیم  لاہور قلندرز کی مینجمنٹ سہیل اختر کو  دو برسوں سے گروم کر رہی تھی،لاہور قلندرز نے پی ایس ایل فائیو کے ڈرافٹ کے موقع پر جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرنے والے سہیل اختر کو جب کپتان مقرر کرنے کا اعلان کیا تو سب حیران رہ گئے، سب نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ سہیل اختر کون ہے اور وہ کیسے کپتان بن گیا جب کہ ٹیم میں دیگر سینئر اور تجربہ کار کرکٹرز بھی موجود ہیں لیکن لاہور قلندرز کی انتطامیہ نے ایک بار پھر اپنے پلئیرز ڈویلپمنٹ پروگرام پر اعتماد کا اظہار کیا اور اسی پلیٹ فارم سے جس کرکٹر کو انہوں نے موقع دیا اور اس نے اپنی شناخت بنائی اس کو قیادت سونپ دی۔

سہیل اختر بتاتے ہیں کہ  میں تین برسوں سے لاہور قلندرز کے ساتھ ہوں، مینجمنٹ نے بہت حوصلہ افزائی کی، میں ٹیم کے ہمراہ آسٹریلیا گیا اور ابو ظہبی کپ میں بھی کپتانی کی اور جب ابوظہبی میں کامیابی حاصل کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ لاہور قلندرز کی انتظامیہ مجھے کپتان کی حیثیت سے گروم کر رہی ہے۔ قلندرز انتظامیہ نے مجھے دو برس تک گروم کیا اور جب کپتانی سونپنے کا وقت آیا تو مینجمنٹ نے مجھے کہا کہ وہ مجھے کپتان بنانا چاہتے ہیں تو کیا آپ تیار ہیں تو میں نے فوری ہاں کر دی اس لیے میرے لیے یہ سب حیران کن نہیں تھا، میں ذہنی طور پر تیار تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھ پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے اور نہ میں یہ سوچتا ہوں کہ میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے ایونٹ میں قیادت کر رہا ہوں، میرے ساتھ سینئر کھلاڑی بھی موجود ہیں، مجھے سینئر کھلاڑیوں کی وجہ سے فائدہ ہو گا۔محمد حفیظ، سلمان بٹ اور فخر زمان میری مدد کے لیے ساتھ ہوں گے، ان کے ساتھ ٹریننگ کے دوران بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور ٹورنامنٹ میں بھی فائدہ ہو گا۔

 پی ایس ایل کی سب سے متحرک اور مقبول فرنچائز کی کپتانی کرنا میرے لیے فخر کی بات ہے، اب مجھے بس اعتماد پر پورا اترنا ہے اور یہی سوچ ہے کہ ٹیم کے لیے اچھے سے اچھا کرنا ہے۔ میں نے تو مایوس ہو کر کرکٹ چھوڑی ہو ئی تھی، ایبٹ آباد ریجن میں مجھے مواقع نہ ملے، میں مایوس ہو چکا تھا، ایبٹ آباد ریجن کی تنزلی بھی ہو چکی تھی اور تین برسوں کے بعد مجھے گریڈ ٹو میں موقع ملا، اچھا کرنے میں کامیاب ہوا اور پھر لاہور قلندرز کے ساتھ جڑ گیا، مجھے موقع دیا گیا تو میں نے خود کو ثابت کیا۔
یاد رہے پاکستان سپرلیگ کے پانچویں ایونٹ کا آغاز 22 فروری سے ہورہا ہے،اس ایونٹ میں ملک بھر سے 6 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ان ٹیموں میں لاہور قلندرز،پشاور زلمی، کراچی کنگز، اسلام آباد یونائیٹڈ، کوئٹہ گلیڈی ایٹر اور ملتان سلطانز شامل ہیں۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer