’’تجھے سب ہے پتہ میری ماں‘‘

’’تجھے سب ہے پتہ میری ماں‘‘
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42: ماں کا عالمی دن،آج پوری دنیا میں ماں جیسی عظیم ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’مدرز ڈے‘‘منایا جا رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ماں کو سلام پیش کیا جا رہا ہے۔ ماں ہے کیا؟ یہ بہت آسان سوال ہے اور اتنا ہی مشکل بھی شاید اس سوال کا جواب دھونڈنا ممکن ہی نہیں۔ویسے تو ماں کی تعریف کرنے کے لیے کسی خاص دن کی ضرورت نہیں چونکہ ماں کے حوالے سے ایک خاص دن مختص کیا گیا ہے تو آج ماں کے کچھ ایسے پہلوں پر روشنی ڈالتے ہیں جن کو ہماری آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں۔

ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

ایک عورت جب  نو ماں ایک بچے کو اپنے خون کے ساتھ سینچتی ہے۔تب اس بچے کا وجود دنیا کو دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے لیکن تب بھی وہ ماں کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے۔تب سے ہی ماں وہی کھاتی ہے جو اس کے بچے کے لیے بہتر ہو۔اس کی سوچ بس یہی ہوتی ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ اس کا بچہ محفوظ رہے ہر قسم کے خطرے سے۔ماں کی قربانیوں کا سلسلہ  اس پہلے دن سے ہی شروع ہو جاتا ہے جب اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک عورت ماں بننے والی ہے۔

نو ماں کے بعد جب ماں اپنے بچے کو اپنی گودھ میں اٹھاتی ہے تو وہ ساری تکالیف بھول جاتی ہے جو نو ماں کے دوران اس نے دیکھی۔وہ سارے دکھ بھول جاتی ہے جو اس کو کبھی زندگی نے دیئے تھے۔وہ ایک لمحہ ماں کی زندگی میں وہ ساری خوشیاں ٹھنڈک بھر دیتا ہے۔جس کی تمنا اس نے کبھی کی تھی اور اب شروع ہوتا ہے ان لازوال نہ ختم ہونے والی قربانیوں کا سفر جو شاید نہیں یقینا ماں کے رہتے تو ختم نہیں ہوگا۔

پھر صرف ایک ہی بات ماں کی زبان پر ہوتی ہے کہ ’’میرا بچہ‘‘

مجھے محبت ہے اپنے ہاتھوں کی سبھی انگلیوں سے باسط

نہ جانے کس انگلی کو پکڑکر میری ماں نے مجھے چلنا سکھایا

چلنا سکھاتی ہے،کھانا سکھاتی ہے، بولنا سکھاتی ہے، اٹھنا سکھاتی ہے،سلا کر خود جاگتی ہے اور ایک بار بھی محسوس ہونے نہیں دیتی کہ اسے بھی کوئی تکلیف ہو سکتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ بچے کے لیے ماں ایک ایسی ہستی ہے جسے نہ تو کوئی دکھ ہوتا ہے نہ کوئی تکلیف کیونکہ ماں اپنے بچے کے لیے سب دکھ تکلیف آنسو پی جاتی ہے۔اور اپنے بچے کو اس کے پاوں پر کھڑا کر دیتی ہے۔ ایک ایسا کامیاب اور مظبوط انسان بنا دیتی ہے کہ وہ دنیا کے ہر طوفان کا ڈٹ کا مقابلہ کر سکے۔

نہ جانے پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اس بچے کو وہ ماں ایک الجھن لگنے لگتی ہے۔وہ ماں جو اسے ایک منٹ اکیلا نہیں چھوڑتی تھی اسی ماں کی موجودگی اس کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔اور ایک وقت آتا ہے کہ وہی بچہ جسے اپنے خون سے سینچا تھا جس کو پہلی بار ہاتھ میں اٹھاتے ہی ماں سارے غم بھول گئی تھی جس کے لیے ساری دنیا سے لڑ گئی تھی آج وہی اولاد یہ کہنے کے قابل ہو گئی کہ’’ آپ کو کیا پتا، آپ کچھ نہیں جانتیں،آپ نے کیا ہی کیا ہے ہمارے لیے‘‘

پیار کہتے ہیں کسے؟مامتا کیا چیز ہے؟

کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

یہ بھی ضرور دیکھیں: