عامر خان کی کونسی فلم کو بہترین نیشنل فلم کا ایوارڈ ملا۔۔؟ (سلیم بخاری)

Amir Khan and Salim Bokhari
کیپشن: Amir Khan
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(دوسری قسط)

مسٹر پرفیکشنسٹ نہیں مسٹر پیشنیسٹ

عامر خان

ان کا ہاتھ فلم بینوں کی نبض پر رہتا ہے

عامرخان چاہے فلم”دل چاہتا ہے“میں کردار کر رہے ہوں یا فلم”دنگل“ میں بھارتی ریسلر مہاویر فوگٹ کا مشکل رول نبھا رہے ہوں،انہوں نے فلم بینوں کی نبض جان لی ہے اور انہیں ہر کردار میں پذیرائی ملتی ہے۔پہلی قسط میں عامر خان کی بہترین فلموں میں سے 10 کا ذکر تھا، جن کا حال آپ جان چکے ہیں،اب بقیہ فلموں کی بھی بات کی جائے تو بہتر ہوگا۔

(11) ”سرفروش“ 1999ء میں منظر عام پر آئی جس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ میڈیکل کے ایک طالب علم کے بھائی کو دہشت گرد ہلاک کر دیتے ہیں اور والد شدید زخمی ہو جاتا ہے تو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر انڈین پولیس سروس میں بھرتی ہو جاتا ہے اور اس کا واحد مقصد دہشت گردوں کا قلع قمع کرناہوتا ہے۔ فلم کے ہدایت کارجان میتھیوماٹھن(John Matthew Matthan) تھے جبکہ اداکاروں میں عامرخان کے علاوہ نصیرالدین شاہ‘سونالی باندرے اورمکیش رشی شامل تھے۔ فلم کوناقدین کی طرف سے بھی سراہاگیا،اسے بہترین فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ ملا جبکہ فلم فیئر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔اس فلم کو کناڈا زبان میں ”ستھیا میوہ جیاتھے“(Sathyameva Jayathe)کے نام سے اور تلیگو زبان میں ”آسترم“کے نام سے 2006ء میں بنایا گیا۔کناڈا فلم میں دیواراج اور تلیگو فلم میں وشنو مانچو اور انوشکا شیٹی نے کام کیا۔

(12) ”قیامت سے قیامت تک“1988ء میں ریلیز ہوئی اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس فلم نے عامرخان کے فلمی کیریئر کو جلا بخشی۔اس فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اپنے والدین کی خواہشات کے برعکس ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں،یہ بھارت کے پس منظر میں رومیو اور جولیٹ انداز کی فلم ہے جس کے ڈائریکٹر منصور خان تھے جبکہ عامر خان کے علاوہ دیگر اداکاروں میں جوہی چاولہ‘ گوگا کپور اور دلیپ تاہل شامل تھے،یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی اورساتھ ہی عامر خان کے بطورہیروکیریئر کو جلا ملی،اس فلم کو بہترین فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ ملا اور 11بارفلم فیئر ایوارڈ کے لئے نامزدگیاں ہوئیں جن میں 8  ایوارڈز اس فلم کے حصّے میں آئے جن میں بہترین فلم‘بہترین ہدایت کار‘ بہترین نیا مرد اداکار اور بہترین نئی اداکارہ کے ایوارڈز شامل ہیں۔یہ فلم دو بار تلیگو زبان میں بھی بنی،بنگلہ دیش میں اسے ”قیامت تھکے قیامت“کے نام سے 1993ء میں بنایاگیاجس میں سلمان شاہ اور موسمی نے کام کیاجو ان دونوں کی پہلی فلم تھی۔

 (13)”رنگیلا“1995ء میں ریلیز ہوئی جس کی کہانی ایک متوسط طبقے کی ایک لڑکی سے متعلق ہے جو بالی وُڈ میں شُہرت حاصل کرنے کے خواب دیکھتی ہے اور محبت کی ایک تکون کا حصّہ بن جاتی ہے جس میں ایک طرف اس کا بچپن کا دوست ہوتاہے تودوسری طرف ایک اداکار،فلم کے ہدایت کار تھے رام گوپال ورما اوراداکاروں میں عامر خان کے علاوہ جیکی شیروف‘ارمیلا مٹوندکر اور گلشن گروور شامل تھے،فلم باکس آفس پر بہت کامیاب ہوئی اور ناقدین نے بھی اسے سراہا،یہ فلم بھی عامر خان کے فلمی کیریئر میں ایک نیا موڑ ثابت ہوئی اور ارمیلا کے ساتھ عامر خان کی کیمسٹری کو بھی سراہا گیا۔  

 (14) فلم”فنا“ریلیز ہوئی تھی 2006ء میں جو ایک بہت پیاری اندھی لڑکی ذونی کی کہانی ہے جس کی ملاقات ایک دل پھینک شخص ریحان سے ہوجاتی ہے اوروہ اپنے دوستوں کی طرف سے دی جانے والی وارننگزکو درخوراعتناء نہیں سمجھتی لہٰذا تنہا زندگی کا سامنا کرتی ہے۔اس فلم کے ہدایت کارکنال کوہلی تھے اور اداکاروں میں عامر خان کے علاوہ کاجول،رشی کپور اور تبو شامل تھے۔فلم نے 2.10 ملین ڈالر کا بزنس کیا،اس فلم میں عامر اور کاجول کی اداکاری کو بہت سراہا گیاتھا۔

 (15)فلم”غلام“منظرعام پر آئی1998ء میں جس میں عامرخان ایک غیرپیشہ ورباکسر کاکردارکرتے ہیں جوکوئی کام کرنے کی بجائے دوستوں کے ٹکڑوں پر پلتاہے،اس کا بڑا بھائی ایک گینگ کا رُکن ہوتاہے،اس فلم کے ڈائریکٹر وکرم بھٹ تھے،اداکاروں میں عامر کے علاوہ رانی مکرجی،رجیت کپور اور مٹاواششت (Miat Vasisht) شامل تھے، فلم کو ناقدین نے مثبت رائے سے نوازا بالخصوص عامرخان کی اداکارانہ صلاحیتوں کو۔”غلام“ کو 2000ء میں تامل زبان میں دوبارہ بنایا گیا۔ 

(16) فلم”ہم ہیں راہی پیار کے“1993ء میں ریلیز ہوئی تھی جس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ راہول ملہوترا(عامرخان)ایک ایسے خاندانی بزنس کا مینجر ہوتاہے جس پر بے پناہ قرضہ واجب الادا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی مرحوم بہن کے شرارتی بچے کا وارث بھی ہے۔راہول جوہی چاولہ کو اپنی فرم میں ملازم رکھتا ہے، فلم کے ڈائریکٹر مہیش بھٹ تھے جبکہ عامر خان کے علاوہ دیگر اداکاروں میں جوہی چاولہ، اور کنال خیمو(Kunal Khemu) شامل تھے۔ اس فلم کو نیشنل فلم کا جیوری ایوارڈ اور فلم فیئرمیں بہترین فلم کا ایوارڈ بھی ملا۔ 

 (17) فلم”ارتھ“1998ء میں منظر عام پر آئی جو 1947ء کی کہانی ہے جب پاکستان اوربھارت کے درمیان سرحدکا تعین کیا جا رہا تھا،اسے ایک آرٹ فلم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔اس کی کہانی ایک نوجوان لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنی آیا کے ساتھ ہونے والے واقعات کی عینی شاہد ہوتی ہے،فلم کی ڈائریکٹر تھی دیپا مہتہ اور اداکاروں میں عامر خان کا ساتھ دیا تھانندیتا داس‘راہول کھنّہ اورشبانہ اعظمی نے،اس فلم کو ناقدین کی طرف سے بہت پذیرائی ملی بالخصوص عامر خان کی اداکاری کو تو بہت سراہا گیا،اس فلم کو غیر ملکی زبان میں بننے والی فلموں کی فہرست میں اکیڈمی ایوارڈز کے لئے شامل بھی کیا گیا۔ 

 (18) فلم ”راکھ“ 1989ء میں ریلیز ہوئی تھی جس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک غریب نوجوان ایک جھلسے ہوئے پولیس مین کے ساتھ مل کر غنڈوں کے ہاتھوں اپنی محبوبہ کی آبروریزی کا بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے،اس فلم کے ہدایت کار ادتیا بھٹہ چاریہ تھے اور اداکاروں میں عامر خان کے علاوہ سُپریا پاتھک (Supriya Pathak)، پنکھج کپور اور جگدیپ شامل تھے۔ 

(19) ”دل ہے کہ مانتا نہیں“ ریلیز ہوئی 1991ء میں جس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک امیر زادی محبوب کی تلاش میں گھر سے بھاگ جاتی ہے اور اسی دوران ایک اور شخص کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار مہیش بھٹ تھے جبکہ اداکاروں میں عامر خان کے علاوہ پوجا بھٹ،انوپم کھیر اور سمیرچترے شامل تھے۔ فلم باکس پر کامیاب رہی تھی۔کہا جاتا ہے کہ یہ فلم 1956ء میں بننے والی نرگس اورراجکپور کی فلم ”چوری چوری“ کا چربہ یا ری میک تھا۔ ”چوری چوری“ کے بارے میں بھی یہ رائے موجود ہے کہ وہ بھی 1934ء میں بننے والی ایک ہالی وُڈ فلم ”It Happened One Night“کی نقل تھی۔”دل ہے کہ مانتا نہیں“کو2000ء میں تامل زبان میں (Kadhal Rojavae)کے نام سے دوبارہ بنایاگیا تھا۔ 

(20)”تلاش“2012ء میں ریلیز ہوئی جس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ انسپکٹر سرجن شیکاوت اپنے خوف سے نبردآزما ہوتاہے،اسے ایک بڑے مرڈر کیس کی تفتیش سونپ دی جاتی ہے جس کا تعلّق ایک ٹوٹے ہوئے شادی کے بندھن سے ہوتاہے،مقدمے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے وہ ایک روزی نامی طوائف سے مدد لیتا ہے۔اس فلم کی ڈائریکٹرریما کاگتی(Reema Kagti) تھی جبکہ اداکاروں میں عامر خان کے علاوہ کرینہ کپور،رانی مکھرجی اور راج کمار راؤ شامل تھے۔یہ فلم 2.17 ملین ڈالر کا بزنس کرکے 2012ء کی سب سے زیادہ بزنس کرنیوالی فلم ثابت ہوئی تھی،اسے بھارت بھر میں ناقدین کی طرف سے مثبت آراء سے نوازاگیاتھا۔

جاری ہے۔۔۔