(علی اکبر)مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان جب دھرنے کیلئے اسلام آباد آئے تو اس وقت بھی کچھ لوگ دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے لیکن عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ہم سب کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور واقعات سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ انہوں نے دی نیوز اور 24 چینل کا ذکر کرتے ہوئے دو واقعات جو حقیقت پر مبنی ہیں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ملیحہ لودھی کو بغاوت کے کیس گرفتار کرنے کا کہا جو اس وقت دی نیوز کی چیف ایگزیکٹو تھیں، اس پر میں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے صحافی برادری اور انٹرنیشنل کمیونٹی میں اچھا تاثر نہیں جائے گا۔
بحث ابھی جاری تھی کچھ لوگ اس کے حق میں اور کچھ لوگ مخالفت میں تھے کہ اسی دوران نماز کا ٹائم ہوگیا، میاں صاحب نے کہا کہ نماز کے بعد بات کرتے ہیں، نماز کے بعد میں نے دیکھا کہ جو لوگ گرفتاری کے حق میں تھے ان میں سے اکثر جا چکے تھے، میں نے اپنے ایک دو حمایتیوں کے ساتھ مل کر میاں صاحب سے کہا کہ ملیحہ لودھی کی گرفتاری کی صورت میں نتائج اچھے نہیں ہوں گے، اسی دوران ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور آپ افہام و تفہیم کا کردار ادا کریں، میں نے ان صاحب سے کہا کہ آپ بات کریں جس پر انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میرے میاں صاحب کے پاس جانے سے غلط تاثر پیدا ہوگا اور میاں صاحب یہ سوچیں گے کہ میں ملیحہ لودھی کی حمایت کیوں کر رہا ہوں۔
چودھری شجاعت حسین نے دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن جب دھرنے کیلئے اسلام آباد آئے تو اس وقت بھی کچھ لوگ دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے لیکن عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا، سب ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ آپ بات کریں آپ بات کریں، اگرچہ چودھری پرویزالٰہی صاحب حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے باضابطہ ممبر نہیں تھے لیکن ان سے کہا گیا کہ آپ عمران خان سے بات کریں۔
چودھری پرویزالٰہی نے عمران خان سے ملاقات میں مشورہ دیا کہ اگر مار کٹائی شروع ہوگئی اور کوئی آدمی مر گیا توالزام لینے پر کوئی تیار نہیں ہو گا البتہ آپ کو ہر چیز کا جواب دینا پڑے گا جس پر فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ چودھری شجاعت حسین نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے معاملے پر ہماری پارٹی پر جو الزام لگایا گیا اس کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حالات کے مطابق میری اور چودھری پرویزالٰہی کی باہمی سوچ پر عمل کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوا، عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس وقت حالات کیا ہوں گے جب پولیس اسلحہ سمیت سڑک کے ایک طرف کھڑی ہو اور دوسری طرف مدارس کے طلباء جو مولانا فضل الرحمن کے آرڈر کا انتظار کر رہے ہوں۔
اس موقع پر میں یہ ضرورکہوں گا کہ مولانا فضل الرحمن نے ان حالات میں بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا اور ہماری حکمت عملی سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مولوی صاحبان اور پولیس چند قدموں پر کھڑے تھے لیکن لڑائی نہیں ہوئی اور اس سارے واقعہ میں ایک گلاس تک نہیں ٹوٹا۔
انہوں نے کہا کہ میں عمران خان سے کہوں گا کہ وہ میر شکیل الرحمن، 24 نیوز اور باقی اخبارات کے مسائل کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی کوشش کریں جو مجھے امید ہے کہ حل ہو جائیں گے کیونکہ اپنے ملک کے بحران کو سب چیزیں بھول کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اس ضمن میں وزیراطلاعات شبلی فراز بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔