سٹی 42: پنجاب اسمبلی کے پونے چھ ارکان کے ووٹ صدر مملکت کے انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن کے ووٹ کے برابر وزن رکھتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے ڈھائی اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے سوا دو ارکان اسمبلی کے ووٹ صدارتی انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن کے ووٹ کے برابر شمار ہوتے ہیں۔
ہفتہ نو مارچ کو صدر مملکت کے انتخاب میں بلوچستان اسمبلی کے ہررکن کا ایک ووٹ ہے اور بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان کے ووٹوں کے برابر یعنی 65 ووٹ پنجاب اسمبلی کے شمار ہوں گے۔ پنجاب اسمبلی میں 371 ارکان ہیں، یہاں پونے چھ ووٹ مل کر صدر مملکت کے الیکشن کا ایک ووٹ شمار ہوں گے۔ اسے الیکٹورل ووٹ کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ملکی ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی)، صوبائی اسمبلیاں اور ایوان بالا (سینیٹ) صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج ہے اور ارکان پارلیمنٹ انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔
صدر مملکت کے انتخاب کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہے جبکہ تمام چاروں صوبائی اسمبلیوں کے یکساں عداد میں ووٹ ہیں جن کی تعداد سب سے چھوٹی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد کے برابر ہے یعنی ہر صوبے کو صدر مملکت کے عہدہ کے لئے 65 ووٹ ملے ہیں۔ اس طریقہ کار کے مطابق کل شام تمام صوبائی اسمبلیوں میں صدر مملکت کے عہدہ کے لئے انتخاب کے لئے دونوں امیدواروں کو ملنے والے کل ووٹوں کو
ایوان زیریں اور ایوان بالا کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہوگا لیکن صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے صوبے کی اسمبلی کے رکن کا ایک ووٹ شمار نہیں ہوگا— فوٹو: فائل
ملک میں عام انتخابات کے بعد صدارتی انتخاب کا دنگل سج چکا ہے اور صدارتی انتخاب کیلئے ریٹرننگ آفیسر و چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے دو امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے ہیں۔
9 مارچ یعنی کل ہونے والے صدارتی انتخاب میں حکومتی اتحاد کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری اور سنی اتحاد کونسل و دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی امیدوار ہوں گے۔
صدارتی انتخابات میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور پنجاب اسمبلی کیلئے الیکشن کمیشن کے ممبر نثار درانی کو پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا ہے۔
سندھ اسمبلی کیلئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور بلوچستان اسمبلی کیلئے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ پریذائیڈنگ افسر ہیں۔
صدارتی انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرنے کا معاملہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے، ایوان زیریں اور ایوان بالا کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہوگا لیکن صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے صوبے کی اسمبلی کے رکن کا ایک ووٹ شمار نہیں ہوگا۔
آئین کے جدول 2 کی شق 18 کے (ب) کے مطابق ’کسی صوبائی اسمبلی میں ہر ایک امیدوار کے حق میں ڈالے ہوئے ووٹوں کی تعداد کو اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں فی الوقت سب سے کم نشستیں ہوں ضرب دیا جائے گا اور اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں ووٹ ڈالے گئے ہوں تقسیم کیا جائے گا‘۔
آئین کے اس جدول کے تحت بلوچستان اسمبلی کا ایوان سب سے کم ارکان پر مشتمل ہے جہاں 65 اراکین ہیں۔ اس طرح بلوچستان کے 65 ارکان کو پنجاب کے 371 کے ایوان پر تقسیم کیا جائے تو پنجاب اسمبلی کے5.7 ارکان کا ایک صدارتی ووٹ تصور ہوگا۔
اسی تناسب سے 168 کے سندھ اسمبلی کے ایوان میں 2.6 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے 145 کے ایوان میں 2.2 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔
صدارتی انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوگا جس میں ہر رکن کو ایک بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا اور جس رکن کو بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا اس کے نام کا اندراج کیا جائے گا جبکہ بیلٹ پیپر پر متعلقہ پریذائیڈنگ آفیسر کے دستخط ہونگے۔
بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے نام حروف تہجی کے نام سے درج ہوں گے اور ووٹ دینے والا رکن پسندیدہ امیدوار کے نام کے سامنے نشان لگا کر ووٹ دے گا۔
صدارتی انتخاب میں جس امیدوار کے ووٹ مدمقابل حریف سے زیادہ ہوں گے وہ کامیاب تصور ہوگا۔
انتخاب کے نتیجے میں جو بھی صدر مملکت منتخب ہوگا اس سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حلف لیں گے۔