(ملک اشرف) سپریم کورٹ نے حمید لطیف ہسپتال سمیت شہر کے تمام پرائیویٹ ہسپتالوں کے باہر سے پارکنگ ختم کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ڈی جی ایل ڈی اے آمنہ عمران نے پیش ہوکر بتایا کہ حمید لطیف ہسپتال میں 13 منزلہ کمرشل عمارت اور پارکنگ کی ناکافی سہولیات ہیں۔1994ء میں رہائشی عمارت کا کمرشل استعمال شروع کیا گیا۔ کمرشلائزیشن پالیسی کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دورے کے دوران ہسپتال کے تو آپریشن تھیٹر میں سامان زنگ آلود پڑا نظر آیا۔ ڈاکٹر راشد لطیف کا یہ معیار رہ گیا ہے کہ وہ 20، 20 روپے سڑک پر پارکنگ کے بھی لے رہا ہے۔ عدالت نے ڈی جی ایل ڈی اے کو ہسپتال کی عمارت کی قانون کے مطابق تعمیر کا جائزہ لینے کا بھی حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی نکال کر فروخت کرنے والی منرل واٹرکی تمام کمپنیوں، وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ عدالتی حکم پر نیسلے کی جانب سے 81 ڈبوں پر مشتمل ریکارڈعدالت میں پیش کیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے متعلقہ دستاویزات مانگیں۔ آپ نے غیر ضروری ڈبے لا کر دئیے۔
چیف جسٹس نے نیسلے کے وکیل اعتزاز احسن سے کہا کہ عدالت نے فرانزک آڈیٹر مقرر کیا آپ نے اس پر کیسے اعتراض کیا۔ اب یہ آڈٹ سپریم کورٹ کی عمارت میں ہو گا۔ اب حجت کے طور پر سی ای او ساتھ بیٹھے گی۔ جب تک آڈٹ مکمل نہیں ہوتا کمپنی کی سی ای او ہر روز آڈٹ کا کام مکمل ہونے تک موجود رہیں گی۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کو ہدایت کی کہ آڈٹ کے لئے دو کمرے مختص کئے جائیں۔کمپنی کی سی ای او اور دیگر سٹاف کو صرف واش روم استعمال کرنے کی سہولت دی جائے
۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالتی حکم مناسب نہیں تو جا کر ٹی وی پر بیان دے دیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ زیر سماعت کیس سے متعلق پہلے ہی بیان بازی سے منع کر چکے ہیں۔ عدالتی معاون میاں ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ نیسلے کمپنی نے غیر قانونی طور پر اربوں روپے کا پانی فروخت کر دیا۔ٹیکس بھی عوام کی جیب سے دیا جا رہا ہے۔نیسلے نے 3 سال میں 2.7 بلین لٹر پانی استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن مفادعامہ کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وکالت کر رہے ہیں۔اعتزاز احسن نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وکا لت کرنا جرم نہیں۔میاں ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ کسی کی پگڑیاں اچھالنے کا آپ کوبھی کوئی اختیار نہیں۔ ڈی جی فوڈ اتھارٹی کیپٹن عثمان نے کہا کہ نیسلے کی بوتل پر موجود لیبل کے مطابق پانی میں منرلز شامل نہیں ہیں۔
فوڈ اتھارٹی کے وکیل میاں افتخار نے کہاکہ نیلسے کا پانی رجسٹرڈ نہیں۔ عدالتی حکم پر نیسلے کمپنی کی سی ای او عدالت میں پیش ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہ کہ پانی ملک کا سب سے بڑا عطیہ ہے جو مفت میں دیا جا رہا ہے،نیسلے کمپنی کرائے کی جگہ لے کر وہاں سے مفت کا پانی بیچ رہی ہے۔ منرل واٹر کمپنیوں نے اربوں روپے کمائے۔ ہم گھروں پر گشت کر کے پانی بچا رہے ہیں اور آپ کرائے کی جگہوں سے پانی نکال کر بیچ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے اکاﺅنٹنٹ جنرل پنجاب کوفرانزک آڈٹ کیلئے ٹیم تشکیل دیکر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے مزید کارروائی آئندہ جمعرات تک ملتوی کر دی۔دریں اثناءسپریم کورٹ نے سابق کمشنر اوورسیز پاکستانیز کمیشن افضال بھٹی سے اضافی لی گئی تنخواہ کی واپسی کیلئے چند روز کی مزید مہلت دے دی۔ سماعت کے دوران ڈی جی نیب شہزاد اور سابق کمشنر اوورسیز پاکستانی افضال بھٹی اپنے وکیل کے ہمراہ پیش ہوئے۔
وکیل نے موقف اختیار کیا کہ افضال بھٹی اضافی لی گئی تنخواہ واپس کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت اس کے پاس مطلوبہ رقم نہیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ افضال بھٹی اپنا پلاٹ فروخت کرکے رقم جمع کرائیں۔ جس کے بعد بیرون ملک جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مہینوں کی نہیں ہفتوں کی بات کریں، رقم واپسی کیلئے اتنا وقت نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے ڈی جی نیب شہزاد کو کہا کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لے لیں ۔