ٹرین حادثہ، بہت سارے سوالات سامنے آگئے

Train Accident
کیپشن: Train Accident
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42: سکھر ڈویژن میں ایک اور ٹرین حادثہ، ڈہرکی کے قریب ملت ایکسپریس اور سر سید ایکسپریس حادثے کا شکار ہوگئیں۔ حادثہ کیوں ہوا؟ کیا یہ حادثہ روکا جاسکتا تھا؟بہت سے سوالات نے جنم لے لیا ہے۔

غریب کی سواری ٹرین پاکستان میں موت کی سواری بنتی جارہی ہے اور سکھر ڈویژن ٹریک موت کا کنواں ثابت ہورہا ہے۔ ایک بار پھر سکھر ڈویژن میں ہی ڈہرکی کے قریب ایک اور حادثہ ہوگیا۔ اس بار ملت ایکسپریس اور سر سید ایکسپریس میں تصادم ہوگیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں جبکہ دوسری پٹڑی پر سر سید ایکسپریس آرہی تھی جوٹریک سے اتری بوگیوں سے جا ٹکرائی۔
اس حادثے سے بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ ملت ایکسپریس کی بوگیاں ٹریک سے اتریں تو سرسید ایکسپریس کے ڈرائیور کواس کی اطلاع کیوں نہ دی گئی؟ کیا دونوں ٹرینوں میں کوئی مواصلاتی نظام نصب نہیں تھا؟ اگر تھا تو اس کا استعمال کیوں نہ کیا گیا؟  کیا ایمرجنسی بریک خراب تھی یا ڈرائیور نے اس کا دیر سے استعمال کیا؟
ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتری ہی کیوں؟ کیااس کی وجہ دہشت گردانہ کارروائی بھی ہوسکتی ہے؟ یا پھربوگیاں ٹریک کی خستہ حالی کے باعث ڈی ریل ہوئیں؟ سکھرڈویژن میں مین لائن کا 4سو 56کلومیٹراوربرانچ لائن کا5سو32کلومیٹر ٹریک نہایت خستہ حال ہے۔
سوالات کا سیلِ رواں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا مگر وزیر ریلوے اعظم سواتی 26 مئی کو ان تمام سوالوں کے جواب دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریلویز چلانا وزیر یا افسروں کا نہیں بلکہ تاجروں کا کام ہے۔

 یادرہے کہ  ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ سکھر کی جانب  سےسی ای او ریلوے کومراسلہ ارسال  کیا گیا تھا کہ  لاہور سے کراچی تک  ٹرین کاسفر غیرمحفوظ اورخطرناک  ہے،ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ سکھر نےسکھر ڈویژن ریلوے ٹریک کو بھی خطرناک قراردیا ۔ ڈی ایس سکھر طارق لطیف کیجانب سے بھجوائے گئے مراسلےمیں بتایاگیاکہ سکھر ڈویژن میں بچھی مین لائن  کے456 کلومیٹر لمبےٹریک  کی حالت خراب ہے جبکہ 532کلو میٹر برانچ لائن کا ٹریک کی بھی حالت بری ہے  ناخوشگوار واقعہ  سے بچنے اور محفوظ ٹرین آپریشن کے لیے جامع پلان بنایا جائے، ٹرین حادثات کی روک تھام اور ریلوے ساکھ کو بچانے کے لیے ٹریک کی بحالی ضروری ہے۔