بھارتی فلم انڈسٹری پاکستان کو لے کر پاگل کیوں؟

بھارتی فلم انڈسٹری پاکستان کو لے کر پاگل کیوں؟
سورس: City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(مانیٹرنگ ڈیسک) دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بالی ووڈ نے ہمیشہ بھارت کی سیاسی سوچ کی عکاسی کی ہے۔ بالی ووڈ میں کوئی ایسی فلم نہیں ملے گی جس میں ولن یا منفی کردار میں کسی چینی کو دکھایا گیا ہو۔

بالی ووڈ کا تمام تر پاگل پن صرف پاکستان کیلئے ہی ہے۔ 1950ء کی دہائی کی فلمیں نئے آزاد ملک کی اُمید اور رومانس کی آئینہ دار تھیں, 70 کی دہائی کا ہیرو طاقتور اور بدعنوانوں کے خلاف لڑنے والا ایک قابل فخر لیکن حق رائے دہی سے محروم آدمی ہوتا تھا۔ اسی طرح 1990ء کی دہائی میں ایسے کرداروں پر فلمیں بنیں جس میں ہیرو یا تو دبئی میں کام کرتا یا لندن کے ڈسکوز میں رقص کرتا تھا اور چم چماتی مرسڈیز چلاتا تھا۔

جب سے ہندوتوا کے پیروکار مودی کی حکومت آئی ہے بالی ووڈ نے بھارتی چالوں سے بھری سیاست کو اپنا لیا ہے۔

سال 2018ء میں عالیہ بھٹ فلم ’رازی‘ کی وجہ سے خبروں کی زینت بنیں، یہ فلم ایک ایسی خاتون کے بارے میں ہے جو 1971ء کی جنگ کے دوران جاسوسی کرنے کیلئے ایک پاکستانی فوجی افسر سے شادی کرتی ہے۔

ایسے ہی سال 2019ء میں ’اُڑی‘ فلم ریلیز ہوئی جس میں دہشت گردی کے واقعہ کو سرجیکل سٹرائیکس کا رنگ دیا گیا۔ اس فلم میں بھی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔ اگرچہ یہ فلم حقیقت پر مبنی نہیں تھی جس میں دو نیوکلئیر ملک آمنے سامنے ہوگئے لیکن یہ فلم بھی حقائق کی بنیاد پر پر کامیاب نہ ہوسکی۔

انڈین فلم انڈسٹری کے بیشتر نامور ستارے جس میں شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان اور دلیپ کمار جو پشاور میں پیدا ہوئے۔ بالی ووڈ کے کئی نامور گلوکار مسلمان ہیں اور ان کو سکرین پر بڑی پذیرائی ملتی ہے۔

مغلِ اعظم فلم کو انتہائی پذیرائی ملی جس میں جہانگیر کے دور کو اُجاگر کیا گیا تھا لیکن آج بھارتی فلم انڈسٹری اپنے سیاسی نظام کے باعث سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔

گزشتہ ماہ شاہ رخ کی فلم ’پٹھان‘ ریلیز ہوئی جس میں آرٹیکل 370 کو غلط انداز میں اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔

فلم کا آغاز لاہور میں ہوتا ہے جہاں ایک پاکستانی فوجی جنرل کے کردار کو دکھایا گیا، یہ منظر بھی شامل کیے گئے کہ نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا ہے، اس آرٹیکل کے تحت کشمیر، بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست، خود مختاری اور خصوصی حیثیت کی ضمانت دی گئی تھی۔

پاکستانی جنرل اپنی زندگی کے بقیہ سالوں کو ہندوستان کو شکست دینے کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور فوری طور پر ایک دہشتگرد کو بلاتا ہے تاکہ بھارت کے خلاف سازش کرسکے۔

یہ سب حقائق سے بالاتر ہے اور اگر آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال بھی ایسی ہی ہے لیکن ہم حقائق پر کیوں بات کریں، ہم کیوں بات کریں کے کشمیری اصل میں کیا سوچتے ہیں؟

جب سے ہندوتوا کے پیروکار مودی کی حکومت آئی ہے بھارت میں مسلمان اداکاروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان اداکاروں کو بار بار کہا جاتا ہے کہ آپ پاکستان چلے جائیں۔ شاہ رخ خا ن کے والد نے آزادی کیلئے جنگ لڑی لیکن شاہ رخ خان نے کبھی بھی ایک لفظ مُودی حکومت کے خلاف نہیں کہا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انڈیا میں مسلمانوں کے حقوق پامال کئے جارہے ہیں۔

فلم ’پٹھان‘ نے اس بات کو چھپانے کی کوشش کی جس میں بھارتی ریاست نے 370 آرٹیکل لگا کر کشمیریوں کے حقوق کی پامالی کی، جس میں انٹرنیٹ لاک ڈاؤن، ہزاروں کشمیریوں کی گرفتاری اور انسانی حقو ق کی خلاف ورزی کی۔

 جنوری میں نیٹ فلکس نے ’مشن مجنوں‘ کے نام سے فلم ریلیز کی جس کی کہانی ایک بھارتی جاسوس کے گرد گھومتی ہے وہ جاسوس پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اس فلم کا ٹریلر ریلیز ہوا تھا تو تب بھی صارفین نے اس کا مذاق اڑایا تھا لیکن انڈیا میں اس فلم کا موازنہ اداکارہ عالیہ بھٹ کی فلم ’راضی‘ سے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان فلم انڈسٹری میں پیار محبت، خواتین سے متعلق معاملات اور اس طرح کی موسیقی کو اُجاگر کیا جا رہا ہے جس میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم دو ہمسایہ ممالک کے درمیان علیحدگی کیوں ہے۔

اس کے برعکس ہمسایہ ملک بھار ت میں ایسی فلمیں بنائی جا رہی ہیں جن سے ثقافت کو مسخ کیا جارہا ہے۔ اگر بھارت کے مرکزی سینما نے اس نفرت انگیز عمل کو نہ روکا تو مستقبل میں یہ عمل دہائیوں تک بالی ووڈ پر چھا جائے گا جس میں خوشی اور مذاق کی بجائے صرف نفرت ہی دیکھنے کو ملے گی۔