( ملک اشرف ) لاہور ہائیکورٹ نے چار سال سے زیر التواء 124 درخواستیں مسترد کردیں، جسٹس عائشہ اے ملک نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی قانون سازی کا اقدام درست قرار دے دیا۔
دواخانہ حکیم اجمل سمیت دیگرنے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قانونی حیثیت کو چیلنج کیا تھا، لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے 45 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ جاری کیا۔ عدالتی فیصلے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور فوڈ اتھارٹی کے دائرہ اختیار کا تعین کردیا گیا، عدالت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو صحت کے معیار کے متعلق تیس روز میں گائیڈ لائن بنانے کا حکم دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ جب تک گائیڈ لائن دستیاب نہ ہوں ڈریپ بین القوامی معیارکے مطابق معاملات چلائے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں نے پارلیمنٹ کو ڈریپ کے ایکٹ بنانے کے لئے قراردادیں پاس کیں۔ قراردادوں کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے پاس ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ بنانے کا اختیار ہے، ہیڈ سینی ٹائزرز کے متعلق ڈریپ وفاقی کابینہ کے فیصلوں کے مطابق عمل کرے۔ عدالت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو درخواست گزاروں کو سن کر تحریری حکم پاس کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈریپ کے فیصلے سے متاثرہ فریق عدالت میں اپیل دائر کرسکتا ہے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ یونانی طب سمیت دیگرز آئٹمز ڈریپ کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان آئٹمز کے معیار کو فوڈ اتھارٹی ہی چیک کرسکتی ہے۔
درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ عدالت ڈریپ کی جانب سے مختلف آئٹمز کے معیار کو چیک کرنے کا دائرہ اختیار کالعدم قرار دے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ صوبوں کی قراردادوں کے بعد قانونی تقاضوں کے مطابق ڈریپ ایکٹ بنا۔ ڈریپ ایکٹ بین الاقوامی قوانین اور عالمی ادارہ صحت کے رولز کے مطابق بنایا گیا جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے دلائل دیے۔