سیاست میں روز ایک نیا ایشو سامنے آجاتا ہے ابھی ہم ایک آڈیو کے سحر سے نہیں نکلتے تو ایک اور آڈیو ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اس بار جو آڈیو آئی ہے وہ دو سگے بھائیوں سابق وفاقی وزیر فواد چودھری اور اُن کے بھائی فیصل چودھری کی ہے۔
اس آڈیو میں ایسا کیا تھا کہ چند منٹ کے اندر اندر سوشل میڈیا پر ٹرک کا چرچا ہونے لگا دیکھتے ہی دیکھتے ’ٹرک پھڑیا گیا‘ کا ٹرینڈ بنا تو ہمیں ہوش آیا کہ سنیں کہ اس آڈیو میں ایسا کیا ہے جو ہر کوئی اس پر اپنے فن کے نمونے بنانے میں مصروف ہے۔ کھوکھا، پیٹی اور ٹرک ہمارے میمن بھائیوں کی مالیاتی لین دین کے وقت کی مخصوص اصطلاحات ہیں۔
جس میں کھوکھا لاکھ، پیٹی کروڑ اور ٹرک کا مطلب ایک ارب روپیہ ہوتا ہے لیکن اس آڈیو میں بولا گیا ٹرک کیا مفہوم رکھتا ہے ہمیں نہیں معلوم۔ میں نے بڑے ہی غور اور تحمل سے ایک سے زائد مرتبہ اس آڈیو کو سنا ہے جس میں فواد چودھری کی مبینہ آواز میں فیصل چودھری کی مبینہ آواز کو کہا جارہا ہے (مفہوم کے مطابق ) کہ وہ لاہور سی جے کی بندیال صاحب سے ملاقات کروا دیں اور پھر کہا جاتا ہے کہ مظاہر صاحب کو بھی بتادیا جائے کہ اُن کے نام پر کوئی ٹرک کھڑا ہے اور اس کے بعد مبینہ طور پر کسی تاڑر کے خلاف استغاثے دائر کرنے کی بات کی گئی ہے، ممکنہ طور پر یہ عطاء تاڑر صاحب کے بارے میں بات ہوسکتی ہے۔
اس آڈیو کے حوالے سے کہیں سے بھی کوئی تردید سامنے نہیں آئی، ظاہر ہے کہ اس آڈیو کا فرانزک ہونا ابھی باقی ہے لیکن جب تک اس آڈیو کے اصلی یا نقلی ہونے کا کوئی ثبوت نہ ہو اُس وقت تک اس طرح کی آڈیو کو پھیلانا کسی نہ کسی شخصیت یا کردار کو داغدار سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔
میں نے اپنے کانوں کے فرانزک سسسٹم کو آن کرکے ایک سے زائد مرتبہ اس آڈیو کو سُنا ہے مجھے تو یہ آڈیو الگ الگ کالز کے حصوں کو مکس کرکے بنائی لگتی ہے کم از کم میری نظر میں تو اس آڈیو کو کسی جگہ پر بھی بطور ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا، آڈیو کو جوڑنے کے حوالے سے اب ٹیکنالوجی عام انڈرائیڈ موبائلز میں بھی دستیاب ہے اس لیے یہ کہنا کہ یہ اصل ہے یا نقل بہت مشکل ہوگیا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال یوں سمجھیے کہ دو دن پہلے جب حریم شاہ کی چند متنازعہ وڈیوز آئیں تو انہیں ڈیپ فیک کی کارستانی قرار دیا گیا۔ دوست احباب جہاں اس ویڈیو سے ہز اٹھاتے وہیں یہ کمنٹ بھی پاس کرتے کہ دجال کے پروردہ لوگوں کی ایجاد موبائل از خود ایک دجال ہے، ٹیکنالوجی بہت آگے نکل گئی ہے اور اس طرح کی فیک ویڈیوز کسی کی بھی بنائی جاسکی ہیں اس طرح کی ٹیکنالوجی کے بارے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی اظہار کیا تھا کہ اُن کی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ساتھ چند متنازعۃ ویڈیوز بنا لی گئیں ہیں جنہیں ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو بھلا ہو کہ حریم شاہ کا کہ اس نے چند گھنٹوں بعد ہی ان ویڈیوز کو ناصرف درست تسلیم کرلیا بلکہ یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ اُن کے موبائل سے چوری شدہ مواد ہے لیکن فواد چودھری اور فیصل چودھری کی جانب سے ابھی تک ایسا کوئی اعتراف بھی سامنے نہیں آیا۔
ہماری سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کو بطور پراپیگنڈا ٹول کے نہیں اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کے کسی بھی عہدیدار کے خلاف ٹرینڈ بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔
جھوٹ کے اس کاروبار نے کسی کو نہیں بخشا نہ کوئی ادارہ بچا نہ کسی ادارے کا سربراہ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ٹرینڈز کی اس ریس کی ابتداء پاکستان تحریک انصاف نے شروع کی اور سوشل میڈیا وارئیر کے نام سے طوفان بدتمیزی کی ایسی فوج ظفر موج کھڑی کی گئی جو اب اپنے بنانے والوں کے بھی قابو میں نہیں ہے۔
اس فورس نے کیا سیاسی لیڈران، کیا اداروں کے عہدیداران اور کیا مذہبی شخصیات، کسی کو معاف نہیں کیا جس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ جھوٹ کا یہ کاروبار ترقی کرگیا اور اب دیگر جماعتیں بھی پی ٹی آئی کے دکھائے رستے پر چل پڑی ہیں اور آپ کو ہر وقت ایک طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتا ہے جس سے کوئی محفوظ نہیں رہا۔
اب بھی وقت ہے پاکستان میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی جانب قدم بڑھایا جائے اور پاکستان کی عدلیہ اس اقدام کا حکم دے کیونکہ اب یہ سوشل میڈیائی آگ اُن کے دامن تک بھی پہنچ رہی ہے۔