وطن واپسی کی اجازت ملنے پر   نیوزی لینڈ کی حاملہ صحافی کا  اپنی حکومت سے بڑا سوال

Charlotte bellis
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)گذشتہ ہفتے نیوزی لینڈ کی حکومت نے 35 سالہ شارلٹ کی بچی کی پیدائش کے لیے وطن واپس آنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس وقت نافذ قوانین کے مطابق ویلنگٹن قرنطینہ ہوٹلوں میں 10 دن گزارنے کے بعد ہی شہریوں اور مستقل رہائشیوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔

 تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی حاملہ صحافی کو نیوزی لینڈ میں کورونا پابندیوں کی وجہ سے داخلہ نہ ملنے کے بعد افغانستان میں طالبان حکمرانوں نے پناہ کی پیشکش کی تھی جس کے بعد سے وہ افغانستان میں ہی مقیم ہیں مگر اب اپنے آبائی ملک واپس جا سکیں گی کیونکہ نیوزی لینڈ کی حکومت نے شارلٹ بیلس نامی حاملہ کیوی صحافی، جنہیں طالبان نے پناہ دینے کی پیشکش کی تھی، کو ملک واپس آنے کی اجازت دے دی ہے۔
نیوزی لینڈ کے ڈپٹی وزیر اعظم گرانٹ روبرٹسن نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران بتایا کہ کورونا کی روک تھام کے لیے قائم قرنطینہ سنٹر میں ایک جگہ موجود ہے اور انہوں نے حاملہ صحافی سے بات بھی کی ہے ساتھ ہی انہوں نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ سوشل میڈیا پر اس کیس کے حوالے سے ان کی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے اس لئے اس معاملے پر توجہ دی۔
شارلٹ نے اس بارے میں نیوزی لینڈ ہیرالڈ میں ایک تحریر بھی لکھی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں بین الاقوامی صحافتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے لیے کام کر رہی تھیں، جہاں ان کے فوٹو جرنلسٹ پارٹنر جم ہوئلیبروک بھی مقیم ہیں۔
چونکہ قطر میں غیر شادی شدہ خاتون کو حاملہ ہونے کی اجازت نہیں ہے، اور بیلس نیوزی لینڈ واپس جانے کی تیاری کر رہی تھیں لہذا انہوں نے اپنے حمل کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم جب انہیں  آگاہ کیا گیا کہ نیوزی لینڈ میں نافذ سخت کووڈ قوانین  کے باعث وہ اپنے ہی ملک میں داخل نہیں ہو سکتیں تو انھیں افعانستان کا خیال آیا، وہ واحد ملک جہاں رہنے کا ویزا ان کے اور جم ہوئلیبروک، دونوں کے پاس موجود تھا۔اس کے بعد بیلس نے طالبان کے سینیئر رہنماؤں سے ملاقات میں انہیں اپنے اور جم ہوئلیبروک کے تعلق کے متعلق بتایا اور اُن سے پوچھا کہ ’کیا میں افعانستان میں (اپنے بچی کو) جنم دے سکتی ہوں؟ مجھے کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا؟‘
جس پر طالبان نے انہیں جواب دیا ’ہم آپ کے لیے خوش ہیں، آپ آ سکتی ہیں اور آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ بس لوگوں کو یہ بتائیں کہ آپ شادی شدہ ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہوا تو ہمیں کال کریں اور بالکل فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ میری ضرورت کے وقت، نیوزی لینڈ کی حکومت نے کہا کہ آپ یہاں نہیں آ سکتیں اور ایسے وقت میں جب طالبان آپ کو ایک غیر شادی شدہ حاملہ خاتون ہوتے ہوئے محفوظ پناہ گاہ کی پیشکش کرتے ہیں، تو تب آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کی صورتحال دراصل کتنی خراب ہے۔
شارلٹ بیلس لکھتی ہیں کہ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اگست میں، میں طالبان سے پوچھ رہی تھی کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق یقینی بنانے کے لیے کیا کریں گے اور اب میں وہی سوال اپنی ہی حکومت سے کر رہی ہوں۔
انھوں نے نیوزی لینڈ میں ایم آئی کیو اور امیگریشن حکام کو 59 دستاویزات فراہم کی تھیں جن میں ماہر امراض نسواں کے خطوط، ڈلیوری کی تاریخ، ویکسین سرٹیفیکیٹ اور دیگر طبی دستاویزات کے ساتھ ساتھ حمل کے دوران ذہنی تناؤ کے اثرات اور افغانستان میں بچے کی پیدائش کے دوران خطرات سے بھی آگاہ کیا گیا تھا۔
وہ پوچھتی ہیں کہ ’حکومت کو مزید کیا ثبوت چاہیے تھے؟ مجھے وقت کے حساب سے انتہائی نازک حالات میں طبی علاج کی ضرورت ہے۔‘
  بیلس کی جانب سے سوشل میڈیا اور اخبارات میں کہانی شئیر کیے جانے پر دنیا بھر سے خاص کر خواتین صحافیوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔
ان کی کہانی نے نیوزی لینڈ میں کووڈ پر قابو پانے کے لیے نافذ سخت قوانین کو ایک بار پھر سے زیرِ بحث لایا ہے۔ نیوزی لینڈ کے حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ حاملہ خواتین کے لیے ہنگامی قرنطینہ کے معیار کو از سر نو متعین کریں۔
سوشل میڈیا پر آنے والے ردِعمل کے بعد نیوزی لینڈ کے حکام نے اُن سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ اس کی مسترد کی گئی درخواست اب زیر غور ہے۔