ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کتے

تحریر : اظہر تھراج

کتے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

تحاریر ہویا تصاویر ،دونوں صورتوں میں سوشل میڈیا پر ’کتے‘اس وقت بہت وائرل ہو رہے ہیں جو کہ ایکس پر ٹرینڈ کررہے ہیں،واٹس ایپ گروپس میں موضوع بحث ہیں ،فیس بک پر میمز  چل رہے ہیں،انسٹا گرام پر ریلیز ،ٹک ٹاک پر شارٹ ویڈیوز کی صورت میں ان کے چرچے ہیں ،یہ ساری صورتحال پر تجسس بڑھا تو معاملے کی چھان بین کا فیصلہ کیا ،سکرول کرتے کرتے  ایک خبر پر نظر پڑی جس کا عنوان کچھ یوں تھا کہ ’لندن میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ، ویڈیو وائرل‘۔آگے بڑھا تو پتا چلا کہ وفاقی وزیر داخلہ نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے تمام حملہ آوروں کے شناختی کارڈ ،پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دے دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مقدمات بھی درج کرلئے گئے ہیں ۔

 جب شناخت کا عمل شروع ہوا تو سب ملزم پہچانے گئے،کیمروں کی بھرمار میں ایسے لوگ چھپ تو نہیں سکتے،ویسے بھی ایسے لوگ تو اپنے عمل کو زیادہ سے زیادہ ناظرین تک پہنچا کر داد وصول کرنا چاہتے تھے،وفاقی وزیر داخلہ کے حکم پر نادرا نے ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کی نشاندہی کر دی ہے ،جس میں سعدیہ نامی خاتون اور اس کا شوہر فہیم سر فہرست ہیں جن کا تعلق لاہور سے ہے جبکہ دیگر حملہ آوروں میں شایان علی اس کی بیوی صدف شایان علی اور اس کی ماں عائشہ شامل ہیں،یہ وہ افراد ہیں جو اس سارے عمل کو لیڈ کررہے تھے یا پھر سرغنہ ہیں ۔

 ایسا ہی ایک واقعہ اسلام آباد کی بیکری میں پیش آیا تھاجس کے’ ڈونٹس ‘بہت لذیز اور مشہور ہیں ،اس واقعہ پر جہاں کچھ لوگوں کی طرف سے مذمت کی گئی تو کچھ کی طرف سے اس عمل کو سراہا گیا ،اس عمل کو سراہنے میں ایک سیاسی جماعت کے کارکن اور رہنماء پیش پیش رہے رہے۔

 یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر ان خبروں سے ’کتے‘کہا ں سے آگئے؟جب کتوں پر ریسرچ کی تو  فیض احمد فیض کی نظم ’کتے‘ پر فوری نظرپڑی جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 

 یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے  کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی 

 زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی  

 آگے بڑھا تو ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ’کتے تاریخ نہیں پڑھتے وگرنہ یوں گاڑیوں کے پیچھے نہ بھاگتے‘۔پھر پطرس بخاری کا مضمون نظر سے گزرا ،جس میں وہ لکھتے ہیں کہ  کتا وفادار جانور ہے، اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے، تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔آگے چل کر پھر وہ لکھتے ہیں کہ ’اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے لیے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے، رفتہ رفتہ سب کتے علاج کے لیے کسولی پہنچ جائیں‘۔

 کچھ سمجھ میں آیا یا نہیں ۔سمجھ میں نہیں آیا تو سنسان گلیوں میں ان کا مشاہدہ کرنا شروع کردیں،گوشت کے پھٹوں پر قریب ان حیوانوں کو دیکھیں یا پھر گھروں میں پالے گئے اس وفادار جانور کی خصوصیات پڑھیں ،اس وفادار جانور کی خصوصیات سے وہ شخص کیسے ناواقف ہو سکتا جس کے بیڈروم تک ’شیرو‘کی رسائی ہو،جس کے کھانے کی میز پر ’زورو‘کے قصے ہوں ۔