ویب ڈیسک : تحریک عدم اعتماد کے لئے الٹی گنتی شروع ہوچکی اور داؤ پر صرف حکومت نہیں ساکھ بھی ہے ۔ ایسے موسم میں ایم کیوایم ایک دفعہ پھر گیمرچینجر پارٹی کے روپ میں سامنے آئی ہے۔
مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے حکومت اور اپوزیشن کی حمایت کے فیصلوں کے بعد اب پی ڈی ایم اور حکومت دونوں کا دارومدار حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر ہے ۔اقتدار کا ہما اس کے سر پر بیٹھے گا جسے ایم کیو ایم چاہے گی۔ آئیے ذرا نمبر گیم پر نظر ڈالتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے پاس 168 ممبران ہیں اور اگر اپوزیشن کو ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہو گئی تو تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 175 ارکان کے ووٹ پڑنے کا امکان ہے اور یوں اپوزیشن اتحاد کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور ایوان میں وزیراعظم اپنی اکثریت کھو دیں گے۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایک درجن سے زائد منحرف ارکان کی حمایت موجود ہے اور کئی ارکان کھل کر بھی اپوزیشن کی حمایت میں سامنے آ چکے ہیں مگر معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہونے کے باعث کئی منحرف ارکان خوفزدہ ہیں کہ ان کے ووٹ کے باعث کہیں ان کا سیاسی کیریئر ہی ختم نہ ہو جائے۔
اپوزیشن ہو یا حکومت دونوں روزانہ کی بنیاد پر ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
ایک حکومتی رہنما کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کو جہاں شہری سندھ کے مسائل کے حوالے سے کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں وہیں ایک مزید وزارت دینے کی پیش کش کی گئی ہے۔
تاہم ایم کیو ایم کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دی گئی ہے اور ایم کیو ایم کو بھی مزید واراتیں دینے پر حکومت راضی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے ماضی میں بھی ایم کیو ایم پاکستان سے وعدے کیے تھے اور 1100 ارب کے ترقیاتی پیکج کا اعلان بھی کیا تھا لیکن وہ پیکج آج تک صرف کتابوں میں ہی ہے۔