سٹی 42: قومی اسمبلی نے انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دے دی۔ بل مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے پیش کیا۔ اپوزیشن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر خارجہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے ہنگامہ کیا، شور شرابے پر حکومتی ارکان کھڑے ہوگئے، ایوان مچھلی بازار بن گیا۔ شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا بولنے نہ دیا گیا تو کوئی بھی نہیں بولے گا، مراد سعید کھڑا ہو تو سب بھاگ جاتے ہیں۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت کی صفوں میں مہا کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں لیکن انہیں مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسپیکرصاحب گواہ ہیں کہ مذاکرات بڑی کمیٹی کوسہولت فراہم کرنے کے لیے کیے گئے، ایف اے ٹی ایف کو متنازع نہیں بنانا چاہتے، چاہتے ہیں کہ پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکل آئے، لیکن تاثر دینےکی کوشش کی گئی کہ ہم نیب زدہ لوگ ہیں اور قومی مفاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے غلط قوانین بنائے وہ خود اس کا شکار ہوئے، ہم نہیں چاہتے کہ کل یہ لوگ بھی ایسے ہی قوانین کا شکار بنیں۔ ہمیں کسی چیزکا خوف نہیں، ہم قوانین میں ترمیم چاہتے ہیں مگر انہوں نے تو خیبرپختون خوا میں احتساب کمیشن ہی بند کر دیا، سارے خیبرپختون خوا میں کوئی بےایمان نہیں، وہاں سارے فرشتے رہتے ہیں۔کیا مالم جبہ، بلین ٹرین سونامی، غیر ملکی فنڈنگ کیس، بی آرٹی پر نیب لاگو نہیں ہوتا؟ نیب کے قوانین صرف اپوزیشن پر لاگو ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اعتراض نہیں، آپ احتساب 1999 سے کریں یا 1985 سے یا پھر 1947 سے کریں، قبروں کے نام پر لوگوں سے پیسے وصول کرنے والوں سے بھی نیب پوچھے۔ یہاں ہمیں ڈیڑھ گھنٹے کا لیکچر دیتے ہیں، انہیں شرم آنی چاہیے، اپوزیشن پر ریفرنس بن رہے ہیں، حکومتی اراکین نے زکوٰۃ کے 7 ملین ڈالرز سے بیرون ملک سرمایہ کاری کی، ان پر بھی تو قبروں کا ریفرنس بنائیں۔ بعض لوگ سیاسی ورکرز کے نام پر دھبہ اور توہین ہیں، ہم نے مشرف کے نیب کو بھی بھگتا اور ان کو بھی بھگت رہے ہیں، بعض لوگوں کی باتوں کا جواب دینا بھی معیوب سمجھتا ہوں، یہ جس سیاسی حادثے کی پیداوارہیں اس کو ساری قوم بھگت رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ نے نیب والے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی، اس پر جو کچھ کہا گیا وہ حقائق سے قطعی مختلف تھا، عوام کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی، تمام بلز اس کمیٹی کو بھیجے جانے پر اتفاق ہوا، تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہم نیب کے معاملے پر بلیک میل کر رہے ہیں، حالانکہ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات میں ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر پہلے بات ہوئی، کمیٹی میں طے پایا کہ قانون سازی کیلئے جتنے بل بھی ہیں کمیٹی میں بھیجے جائیں گے، اس کے ساتھ غیر رسمی کمیٹی اپوزیشن اور حکومت ان بلز پر اتفاق رائے پیدا کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اسپیکر کے گھر پر 9 رکنی کمیٹی نے کام شروع کیا، نیب قوانین میں تبدیلی کے حوالے سےشق وارجائزہ لیا گیا، ان بلز میں چند باتوں کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا وزیرخارجہ نے تاثر دیا کہ ہم نیب زدہ ہیں اور نیب قوانین سے بچنا چاہ رہے ہیں، ان بلز میں سے ایف اے ٹی ایف کے 2 بلز پر اتفاق رائے ہوچکا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ پریکٹس بند ہونی چاہیے، ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نیب قوانین سمیت اس طرح کے امتیازی قوانین کا خاتمہ کر سکتے تھے۔ جس حکومت نے اس طرح قوانین بنائے وہ بدقسمتی سے خود اس کا شکار ہوئی، ہم نے نیب قوانین کےحوالے سے کہا کہ ان کو اب ٹھیک کرنے کا وقت آگیا ہے، ہم نے جو بھگتنا تھا 70، 80 فیصد بھگت لیا ہے اور باقی بھی باعزت طریقے سے بھگت لیں گے، یہ خدا کا خوف کریں، ان کی صفوں میں تو مہا کرپٹ بیٹھے ہوئے ہیں۔
سابق وزیر دفاع نے کہا کہ ہمارا اعتراض ہے ایسے تمام قوانین سیاسی طور استعمال کیے گئے ہیں، انسداد منشیات کا قانون رانا ثنااللہ پر استعمال ہوا، 20 کلو ہیروئن ڈال دی گئی، 3 دن پہلے رات گئے ایک ڈرافٹ میں نیب چیئرمین اور دیگر کی توسیع کی بات لکھی گئی تھی، پھر کل مکرگئے اور دوسرا ڈرافٹ لے آئے، اگر ہمارے آمدن سے زائد اثاثے ہیں تو ان کے ایسسٹ بیانڈ گریو ہیں، نیب ان کی جانب سے قبروں پر بنائے جانے والے پیسوں پر بھی ریفرنس بنائے۔