( قیصر کھوکھر) پنجاب کی افسر شاہی اس وقت نیب اور اینٹی کرپشن سے خوف زدہ ہے۔ کئی افسران اہم مالی معاملات میں فیصلے کرنے اور دستخط کرنے سے گریزاں ہیں اور نیب کے خوف کی وجہ سے فائل ورک پر کم کام کرتے ہیں اور خاص طور پر پراجیکٹ، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو اور دیگر محکمے جہاں پر ٹھیکے ملوث ہیں وہاں پر کام سست روی کا شکار ہے۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے افسران کو تحفظ دینے کے لئے سول سیکرٹریٹ کا دورہ بھی کیا تھا جہاں پر انہوں نے ان افسران کو ایمانداری سے کام کرنے اور نیب کی جانب سے غیر ضروری طور پر کسی بھی افسر کو تنگ نہ کرنے کا یقین دلایا تھا ۔ اب نئے چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان نے چارج سنبھال لیا ہے اور کام شروع کر دیا ہے ۔ انہوں نے سیکرٹریوں، کمشنرز، آر پی اوز سے اجلاس کے بعد اب ڈویژن کی سطح کے دورے شروع کر دیئے ہیں۔
افسر شاہی اگر کوئی غلط کام نہیں کرے گی تو نیب انہیں کیونکر تنگ کرے گا اور کیوں انہیں نیب کے دفتر بلایا جائے گا۔ پنجاب کی افسر شاہی میں اندرونی احتساب کا کوئی نظام واضح نہیں ہے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر محکمہ کے اندر ایک احتساب سیل قائم کیا جائے جو ہر افسر کی کارکردگی کو چیک کرے اور اس کا اندرونی حساب کتاب رکھے ۔ واپڈا اور دیگر وفاقی اداروں میں محکموں کے اندر اندرونی احتساب کے ونگ قائم ہیں جو ہر افسر کے خلاف انکوائری میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
پنجاب کی افسر شاہی میں اس طرح کا کوئی نظام واضح نہیں ہو سکا ہے اور محکمہ اینٹی کرپشن الگ سے قائم ہے جو صرف گریڈ 17تک کے ملازمین کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور بڑے افسران پر ہاتھ نہیں ڈالتا ہے اور نہ ہی محکمہ اینٹی کرپشن کو پنجاب سول سیکرٹریٹ میں چھاپہ مارنے کی اجازت ہے۔ اور اس طرح محکمہ اینٹی کرپشن چھوٹے ملازمین کےلئے دہشت کی علامت بن چکا ہے اور سیکرٹری، کمشنر، آر پی او پر ہاتھ نہیں ڈالتا ہے جبکہ نیب چھوٹے ملازمین کو کچھ نہیں کہتا ہے سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعظم فواد حسن فواد، سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد خان چیمہ اور وسیم اجمل چودھری کی گرفتاری کے بعد سے ہر افسر اپنے طور پر ایک خوف میں مبتلا ہے ۔ پنجاب کی افسر شاہی نے ایوان وزیر اعلیٰ کے زبانی حکم پر فیصلے کرنا چھوڑ دیئے ہیں۔
یہ اب نئے چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان خان اور نئے آئی جی پولیس شعیب دستگیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ افسر شاہی کا مورال بلند کریں اور افسران کو بڑے بڑے فیصلے کرنے کےلئے تیار کریں۔ فوادحسن فواد اور احدخان چیمہ اور وسیم اجمل چودھری کا کتنا قصور تھا اور انہوں نے کہاں تک کرپشن کی ہے یہ فیصلہ اب عدالت کرے گی اور یہ سارا معاملہ اب نیب کورٹ میں ہے۔ نئے چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان خان نے ڈویژن کی سطح کے دورے شروع کر دیئے ہیں اور ان دوروں کے دوران انہوں نے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا ہے اور ڈویژنل کمشنرز اور اضلاع کے ڈی سی کے تیار کردہ ترقیاتی منصوبوں کو تیز کرنے اور انہیں بروقت مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ ان منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب کی یہ بھی ڈیوٹی ہے کہ وہ ہر محکمہ کے ساتھ اجلاس کریں اور ہر محکمہ کے موجود ایشوز کو حل کریں اور افسر شاہی کو تیزی سے کام کرنے کا پابند کریں تاکہ محکموں کی استعداد کار بڑھائی جا سکے اور محکموں میں عوام کے کام ہو سکیں اور لوگوں کو انصاف بھی مل سکے اور افسران بھی عوام کے لئے دفاتر میں موجود ہوں۔
چیف سیکرٹری پنجاب نے تمام افسران کے کمروں کے باہر یہ لکھوا دیا ہے کہ کس وقت وہ افسر عوام کے لئے موجود ہوگا اور کس وقت نہیں ہوگا یہ ایک اچھا اقدام ہے اور اس سے عوام کو ان افسران تک رسائی ملے گی اور عوام کے مسائل بھی حل ہونگے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کو یہ بھی چاہیے کہ وہ ہر محکمہ میں ایک ڈپٹی سیکرٹری گریڈ 18کے افسر اندرونی احتساب کےلئے تعینات کریں جس کا کام صرف اور صرف افسران کے کام پر نگاہ ہو کہ کون کام کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا ہے اور اگر کوئی کرپشن یا کوئی غلط کام کر رہا ہے تو اس کے خلاف انکوائری شروع کی جا سکے۔ اور سرکاری امور بہتر طور پر نمٹائے جا سکیں اور نیب یا اینٹی کرپشن کو اس افسر کےخلاف کارروائی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور سب معاملات محکمانہ سطح پر ہی حل ہو جائیں۔ اگر کوئی کرپشن میں ملوث پایا جائے تو اس افسر کو اس کی تعیناتی کی جگہ سے بھی ہٹایا جا سکے اور بہتر سے بہتر افسران کو فیلڈ اور ہیڈکوارٹر میں تعینات کیا جائے۔ اس وقت چیف سیکرٹری پنجاب نے شفاف اور اچھی شہرت کے حامل افسران کو فیلڈ میں ڈی سی ، کمشنر اور سیکرٹری تعینات کیا ہے اور ایک اچھی ٹیم بنا لی ہے۔
اب اس ٹیم کو نیب کے خوف سے نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ افسر شاہی بہتر طور پر اپنے فرائض منصبی ادا کر سکے اور اس سلسلہ میں نیب سے بات بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ افسران کو نیب آفس طلب کرنے کی بجائے انہیں ان کے دفاتر میں ہی سوالنامہ بھیج دیا کرے اور اس سوال نامے کی موجودگی میں نیب بھی اپنا کام کر لے اور افسران بھی خوف سے بچ جائیں۔ کیونکہ جب تک افسر شاہی کو نیب اور اینٹی کرپشن کے خوف سے نہیں نکالا جائے گا چیف سیکرٹری پنجاب جتنی اچھی ٹیم بنا لیں اور جتنا اچھا کام کر لیں محکموں کے معاملات بہتر طور پر نہیں نمٹائے جا سکتے ہیں اور افسران کے خوف اور نیب کے ڈر سے کام نہ کرنے سے ایک جانب عوام پس رہے ہیں اور دوسری جانب ترقیاتی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں۔ نیب حکام اور پنجاب کی افسر شاہی کی ایک اور نشست ہونی چاہیے تاکہ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہو سکیں