بیوروکریسی کی بڑھتی کنفیوژن

 بیوروکریسی کی بڑھتی کنفیوژن
کیپشن: City42 - Qaiser Khokhar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) پنجاب میں بیوروکریسی کی کنفیوژن دن بدن بڑھ رہی ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان ابھی تک ہنی مون شروع ہی نہیں ہو سکا۔ نئے تعینات ہونے والے چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر اور آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی ابھی تک ٹیم ورک پر صلاح و مشوروں میں ہی مصروف عمل ہیں۔

گزشتہ دنوں چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر نے وقت لے کر وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار سے ملاقات کی اور ٹی وی پر اس کی فوٹیج اور ہینڈ آﺅٹ جاری کیا گیا ۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ چیف سیکرٹری وزیر اعلیٰ سے وقت لے کر ملاقات کر رہے ہیں ،حالانکہ چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ کے درمیان تو ہر وقت اور ہر روز انٹر کام اور موبائل اور بغیر وقت لئے ملاقات اور رابطہ ہونا چاہئے۔ جیسا کہ جاوید محمود اور ناصر محمود کھوسہ کا اپنے دور کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ رابطہ ہوتا تھا یہ حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ایک معنی خیز ہے۔

بیوروکریسی ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کر سکی ہے کہ ان کا باس کون ہے۔ ایک جانب سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان ہیں تو دوسری جانب محمود الرشید ہیں۔ تقرر و تبادلوں کے تمام اختیارات ایوان وزیر اعلیٰ سے ہی مانیٹر ہو رہے ہیں۔ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی نے پنجاب میں بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلوں کی لسٹ تیار کی ہے لیکن چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر اور ایوان وزیر اعلیٰ میں ابھی تک اس پر مشاورت ہی ہو رہی ہے۔ کون باس ہے اور کون ماتحت، کسی کو معلوم نہیں ۔ سابقہ دور حکومت میں تمام اختیارات اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے پاس ہی ہوتے تھے اور وزراءاور ارکان اسمبلی رو رہے ہوتے تھے کہ ان کے ذاتی کام بھی نہیں ہو رہے ہیں

یہی رونا روتے سابقہ حکومت چلی گئی اور بیورو کریسی کے تمام معاملات شہباز شریف نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے تھے ،لیکن اب کی بار جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے کسی کو معلوم نہیں کہ طاقت کا سر چشمہ کون ہے اور کس کا حکم چلتا ہے اور کون بیوروکریسی کو چلا رہا ہے اور کس کی سفارش پر اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے تبادلے کئے جا رہے ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) اعجاز احمد نے اسسٹنٹ کمشنرز کے بڑے پیمانے پر تبادلے شروع کر رکھے ہیں اور اس سلسلہ میں پی ٹی آئی کے مقامی ارکان اسمبلی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جا رہا ۔

اے سی ، ڈی ایس پی ، ایس ایچ او اور ڈی پی او اور ڈی سی وہ افسر ہوتے ہیں جن کے ذریعے ارکان اسمبلی تحصیل اور ضلع کی سطح پر حکومت کرتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ تحصیل اور ضلع کی سطح کی انتظامیہ ان کی مشاورت کے بغیر لگا ئی جا رہی ہے اور عوام کی ارکان اسمبلی سے شکایات بڑھتی جا رہی ہیں۔ پنجاب حکومت نے سات ماہ کا بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں ترقیاتی بجٹ بارہ ماہ کار کھا گیا ہے۔ ایک سال کا ترقیاتی

 بجٹ سات ماہ میں خرچ کرنا ہوگا۔ پنجاب کی بیوروکریسی ترقیاتی بجٹ کے خرچ میں بڑی حساس ہے اور کوئی بھی اس وقت کسی حساس کاغذ پر دستخط کرنے سے گریزاں ہے۔ افسر شاہی ایک کنفیوژن کا شکار ہے اور افسردہ ہے کہ کہیں نیب انہیں ہی نہ بلا لے کیونکہ احد خان چیمہ اور فوادحسن فواد کی مثال سامنے ہے ۔ بیوروکریسی میں یہ ایک عام بات مشہور ہے کہ حکمرانوں کی زیادہ قربت بھی نیب میں بلائے جانے کا سبب بنتی ہے لہٰذا ہر افسر ایک خوف میں مبتلا ہے اور ہر قدم پھونک پھونک کررکھ رہے ہیں۔ بیوروکریسی کی مرکزیت کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے کہ کس کا حکم مانا جائے کیونکہ پنجاب میں اس وقت کئی وزیر اعلیٰ کے اختیارات استعمال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

 اگر کوئی حکم دیتا ہے تو پھر اس کی ذمہ داری بھی قبول کرے ماضی میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن ہوا جس میں چودہ بے گناہ افراد جاں بحق ہو گئے لیکن ابھی تک حکمرانوں سمیت کوئی بھی اس کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں۔ نوے فی صد افسر چیف سیکرٹری کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب ابھی تک اپنی ٹیم ورک پر سوچ بچار کر رہے ہیں ابھی تک انہوں نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ ماضی میں شہبازشریف کے دور حکومت میں جاوید محمود اور بعد ازاں ناصرمحمود کھوسہ کو اپنی ٹیم بنانے کے لئے فری ہینڈ دیا گیاتھا اور انہوں نے اپنے ابتدائی ادوار میں ہی ایک اچھی ٹیم بنا لی وہ والا ٹیم بنانے کا مینڈیٹ ابھی تک موجودہ چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر کو نہیں مل سکا ۔

 یوسف نسیم کھوکھر کی انڈرسٹیڈنگ ابھی تک موجودہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ نہیں ہو سکی ہے جو جاوید محمود اور ناصر محمود کھوسہ کی اپنے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ محکموں کے سیکرٹری محتاط انداز میں محکموں کو چلا رہے ہیں اور اپنے محکمانہ کاموں میں دلچسپی کم ہی لے رہے ہیں۔ ڈنگ ٹپاوچکر میں نظر آتے ہیں اور وقت گزارنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ کوئی بڑا فیصلہ نہیں لیا جا رہا ہے جن محکموں کے پاس اربوں روپے کا بجٹ ہوتا ہے وہاں بھی مکمل خاموشی ہے چیئرمین پی اینڈ ڈی ابھی تک کوئی عوامی فلاحی منصوبہ متعارف نہیں کر ا سکے ہیں۔ بیوروکریسی کا تیار کردہ بجٹ پیش کر دیا گیا ہے پولیس کے معاملات سب کے سامنے ہیں پولیس میں بہتری لانے کےلئے جنہیں مشیر مقرر کیا گیا تھا وہ استعفیٰ دے چکے ہیں اور آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی نگران دور کی ٹیم سے ہی کام چلا رہے ہیں۔

وفاق سے آنےوالے ایڈیشنل آئی جی راﺅ سردار علی جنہیں آئی بی میں کام کرنے کا تجربہ ہے ان کو ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ لگایا جانا چاہئے تھا لیکن انہیں ایڈیشنل آئی جی ویلفیئر اینڈ فنانس لگا دیا گیا ہے جس کا انہیں کوئی تجربہ نہیں ۔ ایوان وزیر اعلیٰ کے افسروں کی ابھی تک پنجاب کے سیکرٹریوں کےساتھ انڈر سٹیڈنگ نہیں ہو سکی ہے اور ایوان وزیر اعلیٰ ہر کام میںفائلوں کو روکنے کا زیادہ اور فائلوں کو تیزی سے نکالنے کا کم کام کر رہا ہے۔

 صوبائی محکموں کا کوئی پرسان حال نہیں، پنجاب حکومت ابھی تک عوام کی توجہ حاصل کرنےوالاکوئی منصوبہ پیش نہیں کر سکی ہے، یہ تمام فیصلے کہاں ہو رہے ہیں اور کون حکومت چلا رہا ہے کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہو سکے گا جب وزیر اعلیٰ کا کام وزیراعلیٰ ، چیف سیکرٹری کا کام چیف سیکرٹری ، آئی جی کا کام آئی جی اور تمام افسروہی کام کریں جو ان کا ہے۔ تب ہی مسائل حل ہوں گے اور معاملات آگے بڑھیں گے اور عوام کو ایک تبدیلی بھی نظر آئے گی۔ ورنہ کنفیوژ بیوروکریسی مزید کنفیوژ ہوتی جائے گی اور حالات کنٹرول سے باہر ہوتے جائیں گے اور عوام تبدیلی کے نام سے نفرت کرنے لگیں گے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر