ویب ڈیسک: افغان طالبان کو دنیا کے امیر ترین باغی گروہوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے ۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے طالبان کی آمدنی کے ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں طالبان کے آمدن کے مختلف ذرائع بتائے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2017 تک طالبان کی سالانہ آمدنی 400 ملین امریکی ڈالر تھی لیکن 2018 کے اختتام میں یہ 1.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی آمدن کے 4 ذرائع ہیں۔
افغان اور امریکی حکام پاکستان سمیت ایران اور روس پر طالبان کی مالی معاونت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں ۔جبکہ تینوں ممالک نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ۔ ماہرین کے مطابق طالبان کو افغانستان سے باہر سے تقریباً 500 ملین ڈالر کی سالانہ امداد ملتی ہے ۔
افغانستان افیون کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور طالبان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے وہ افیون کے کاروبار سے بھی بڑی رقم حاصل کرتے رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق افغانستان سے سالانہ بنیاد پر تقریباً 1.5 سے 3 ارب امریکی ڈالر مالیت کی افیون بیرون ملک بر آمد کی جاتی ہے۔
رپورٹ کےمطابق طالبان کی جانب سے افغان تاجروں کو ان کے زیر کنٹرول علاقے میں آکر تعمیراتی سامان اور پیٹرولیم مصنوعات کی خریدو فروخت کے لیے ٹیکس ادا کرنے پر قائل کیا جاتا تھا۔2018 میں افغانستان کی سب سے بڑی الیکٹرک کمپنی کے سربراہ نے بتایا کہ طالبان ملک کے بیشتر حصوں میں بِجلی فراہم کر نے کی آڑ میں شہریوں سے سالانہ 20 لاکھ امریکی ڈالر وصول کرتے تھے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں کان کنی کی صنعت کا سالانہ تخمیہ ایک ارب امریکی ڈالر ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان ملک کی کانوں پر قابض ہو گئے تھے جس کے ذریعے انہوں نے قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے رقم بنائی۔اقوام متحدہ کی 2014 میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طالبان نے افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں 25 سے 30 غیر قانونی کانوں سے سالانہ 10 ملین امریکی ڈالر کمائے.