(انا یوسف) بیس دسمبر بروز جمعرات میں نے جب صبح اخبار پکڑا تو سب سے پہلے ایک نظر جس شہ سرخی پر پڑی وہ کچھ یوں تھی کہ شہری ہوشیار! گھر کے باہر گاڑی دھونے سے کریں اجتناب ور نہ ہو گی تین ماہ قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ۔ خبر پڑھتے ہی میں اس سوچ میں تھی کہ آخر کیوں عام آدمی کی زندگی کو مشکل سے مشکل بنایا جارہا ہے، آج یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ ریمپ پر پانی نظر آیا تو کارروائی ہو گی تو کل کیسے عام آدمی اپنے معاملات نبھائے گا یعنی گھر کا صحن نہ دھویا جائے، گھر میں صفائی ستھرائی نہ کی جائے کہ پانی کا ضیا ع نہ ہو، پھر یہ نہ کہہ دیا جائے کہ گھر میں برتن نہ دھوئے جائیں چونکہ پانی کا ضیاع ہو گا، یا پھر کپڑے نہ دھوئے جائیں، چونکہ پانی کا ضیاع ہوگا، یہ سب انسان کی بنیادی ضروریات ہیں، جن کو مشکل سے مشکل بنایا جارہا ہے، مطلب یہ کہ کرے کوئی بھرے کوئی والا معاملہ تو نہیں کہ لوگوں کیلئے مشکل کھڑی کر دی جائے، پانی بچانے کےلئے گھر کی چار دیواری میں بھی انسان اپنی مرضی سے نہیں رہ سکتا اپنے کام نہیں کرسکتا، اپنا گھر صاف نہیں رکھ سکتا ۔
خبر کی تفصیلات کے مطابق واسا نے اپنے سروس ایریا کے رہائشی علاقوں میں پانی کا ضیاع روکنے کیلئے گھروں کے ریمپس پر پائپ لگا کر گاڑیاں دھونے پر پابندی عائد کر دی ہے اور خلاف ورزی کرنے پر تین ماہ قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا، واٹراینڈ سینی ٹیشن (واسا) نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم کی ہدایت اور فیصلے کی روشنی میں گھروں میں پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے اقدامات شروع کر دئیے، واسا کے ایریاز میں گھروں میں پانی کے بے دریغ استعمال کی اجازت نہیں ہوگی، گھروں کے اندر سے پانی باہر آنے پر سزا اور جرمانہ ہوگا اور اس تمام صورتحال کو یقینی بنانے کیلئے آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اور باقاعدہ تشہیر بھی کی جائے گی۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ زیر زمین پانی کی سطح ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ کم ہو رہی ہے، بلاشبہ یہ لمحہ فکریہ ہے اور ہمیں بھی اس معاملے میں مثبت سوچ رکھنی چاہیے لیکن اس طرح کے احکامات ، کارروائی اور پھر سزائیں، شہریوں کو پابند بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، عوام کوپابند بنایا جائے مگر بنیادی سہولیات کو تالا نہ لگایا جائے۔
جب شہریوں کے خیالات جانے تو عام آدمی کہتے نظر آئے کہ کیوں نہ اپنے گھر میں پانی استعمال کریں، پانی کا بل دے رہے ہیں لیکن پانی ضائع کرنے کے حق میں تو عام شہری بھی نہیں ہے۔ عام شہری پوچھتا ہے کہ کیوں نہ وہ اپنے گھر کی صفائی کرے، صحن کیوں نہ دھوئے کہ گھر سے باہر ریمپ پر پانی نہ جائے کارروائی ہو گی۔ کیوں انہیں ڈرایا جا رہا ہے۔ کیوں وہ اپنے گھر میں سزاﺅں کے ڈر سے جرمانے کے ڈر سے پانی کا استعمال نہ کریں۔ شہری کہتے ہیں ادارے کہاں ہیں۔ کیوں ان کی جانب سے کوئی پلاننگ نظر نہیں آرہی کہ پانی کو بچایا جائے۔ کیوں ہر چیز کا خمیازہ عوام بھگتےں۔ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کروا پاتے تو شہریوں کے لیے مشکلات، بجلی نہیں تو شہریوں کے لیے مشکلات، گیس نہیں تو شہریوں کے لیے مشکلات۔ یعنی ہر طرح سے عام آدمی کے حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے اور اس کی بنیادی ضروریات اس سے چھینی جا رہی ہیں۔ پہلے ہی اشیاءخورو نوش کی قیمتوں میں اضافے نے شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس پر آئے روز اس طرح کی خبروں سے شہری نالاں نظر آتے ہیں۔
شہری سوال کرتے ہیں کہ واسا اس طرح کی کارروائیوں سے پہلے اپنے ان لوگوں کو پکڑے جو پانی چوری میں ملوث ہیں، غیر قانونی کنکشن لگوانے میں پیش پیش ہیں۔ اپنی پلاننگ کو تبدیل کریں۔ نہری پانی کو ریٹریٹ کریں۔ ویسٹ واٹرکا استعمال کریں۔ اس کو قابل استعمال بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں تو شہریوں کی مشکلات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس طرح آئے روز نئی مشکل میں نہ ڈالا جائے۔ ناقص پلاننگ چاہے وہ سابق حکومت کی تھی یا پھر نئی حکومت کی، ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنا بند کیا جائے اور شہریوں کی مشکلات کو کم کیا جائے، آسانی پیدا کی جائے۔ تبدیلی سرکار نے دعوے بڑے بڑے کیے، 100 روزہ پلان کا شور بھی بہت سنا، حقیقت سب کے سامنے ہے۔
پروٹوکول نہ لینے کے بڑے بڑے دعوے بھی کیے گئے وہ بھی ہوا ہو گئے۔ صحت، تعلیم کسی بھی میدان میں فی الحال کوئی بھی کام نظر نہیں آرہا۔ نہ ہی مستقبل قریب میں روشنی کی کوئی کرن نظر آرہی ہے۔ دعوے تو کیے گئے کہ عام آدمی کا معیار زندگی بہتر کیا جائے گا۔ لیکن عام آدمی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ تشہیر ضرور کی جائے، آگاہی مہم ضرور چلائی جائے لیکن اپنے معاملات پر بھی نظر ثانی کی جائے، پلاننگ میں بہتری لائی جائے اور زیر زمین پانی کی سطح کو ضرور بچایا جائے کیونکہ یہ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔ یقینا بڑا مسئلہ ہے، حل طلب ہے اور اس صورتحال میں ناگزیر ہے کہ شہری بھی ذمہ دار رویہ اختیار کریں اگر آئے روز نئی پابندیوں سے بچنا چاہ رہے ہیں۔ کارروائیوں سے بچنا چاہ رہے ہیں تو خود بھی اپنا کردار اداکریں تب ہی مسئلے کا حل ممکن ہے۔