اویس کیانی: تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا انٹرا پارٹی الیکشن آئندہ دو ہفتے کے دوران نہ ہونے کی صورت میں شدید خطرے میں ہے ۔
تین روز سے میڈیا میں سرگرمی کے دوران اکبر ایس بابر بتا رہے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے سے تحریک انصاف کی بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑنے کی صلاحیت بھی خطرے میں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خود عمران خان عمران خان انٹرا پارٹی الیکشن میں بطور چیرمین کے امیدوار کیلیے نااہل ہیں۔
اکبر ایس بابر سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف پارٹی میں عمران خان کے نامزد کئے ہوئے کچھ وکلاء اپنی دکان چمکنے کیلیے پی ٹی آئی کے عہدیدار بنے ہوئے ہیں ۔
ایک انٹرویو میں اکبر ایس بابر نے کہا کہ پہلے اجرتی سیاستدان اور پارٹی کے کنگلے ارب پتی بن کر وقت آنے پر بھاگ گئے اب ان وکلاء کا نمبر لگا ہوا ہے۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ صدر علوی نے پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔عارف علوی نے بطور سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی غیر قانونی کام کیے جو الیکشن کمیشن کے فیصلے میں ثابت ہو چکا ہے۔فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے پر سزاؤں پر عملدرآمد ہونا ابھی باقی ہے۔بطور صدر عارف علوی نے موجودہ چیف جسٹس کیخلاف غیر آئینی ریفرنس فائل کیا اور غیر قانونی اسمبلی تحلیل کی۔عارف علوی کو بطور صدر مملکت بہت پہلے استعفی دے دینا چاہیے تھا۔پی ٹی ائی کو اب انٹر پارٹی الیکشنز سے بھاگنا نہیں چاہئے۔
اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کے ورکرز کیلئے لیول پلاننگ فیلڈ کی تحریک شروع کر دی۔حامد خان نے 2013 کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دھاندلی اور کرپشن کی جو تحقیقات میں ثابت بھی ہوا۔جسٹس ر وجیہہ الدین انٹرا پارٹی الیکشن کے الیکشن کمشنر ہونے چاہئے۔تحریک انصاف کے پاس پہلے چراغ کا انتخابی نشان تھا۔1997 میں پی ٹی آئی چراغ کے نشان پر الیکشن لڑی تھی۔اگست 2002 میں پی ٹی آئی نے بلے کے نشان کیلیے الیکشن کمیشن کو درخواست دی تھی ۔اکبر ایس بابر ملکی سطح اور اوورسیز مقیم پی ٹی آئی کے بانی ارکان کے ساتھ میدان میں آ گئے۔سعید اللہ خان نیازی، کمانڈر رضا حسین شاہ،محمود خان،یوسف علی اکبر ایس بابر کے ہمراہ میدان میں آ گئے۔بلال رانا،خواجہ امتیاز اور فوزیہ قصوری بھی نئے مشن میں شریک ہیں۔
اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کی تنظیم اور پارٹی انتخابات کیلیے سرگرم ہو گئے ہیں۔پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کس کی نگرانی میں ہوں گے ،ووٹر لسٹیں کیسے مرتب ہوں گئی پولنگ کا کیا شیڈول ہو گا یہ سب سوالات ہوں گے اب۔جن جن لوگوں کیخلاف فیصلہ آ چکا ہے وہ پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے نا اہل ہو چکے ہیں۔ 70 صفحوں کا فیصلہ ہے جس میں ثابت ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈر شپ مالی بے قاعدگی میں ملوث تھی۔ پی ٹی ائی کی مرکزی قیادت نے جعلی سرٹیفکیٹ دیے۔ غیر قانونی فنڈنگ ہوئی۔ آفشور کمپنیاں تھیں یہ سب ثابت ہو چکا ہے۔
عمران خان اپنے بیانات، اصولوں کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن میں بطور چیرمین کے امیدوار کیلیے نااہل ہیں۔ لیول پلاننگ فیلڈ چاہتے ہیں ان کیلیے اپنا انٹرا پارٹی الیکشن بڑا امتحان ہے۔
آجکل کچھ وکلاء اپنی دکان چمکنے کیلیے پی ٹی آئی کے عہدیدار بنے ہوئے ہیں
پہلے اجرتی سیاستدانوں اور پارٹی کے کنگلے ارب پتی بن کر وقت آنے پر بھاگ گئے اب ان وکلاء کا نمبر لگا ہوا ہے
جیسے آجکل عہدے بانٹے جا رہے ہیں یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں
وکلاء کی سیاست الگ چیز ہے قومی سیاست الگ چیز ہے
جو وکلاء آجکل تحریک انصاف کے کرتا درتا بنے ہوئے ہیں انہیں قومی سیاست کی سمجھ نہیں ہے