ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کورونا وباء اور اپوزیشن کا کردار

کورونا وباء اور اپوزیشن کا کردار
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(عمر اسلم) ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اورکورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ہمارے سمارٹ وزیراعظم کبھی سخت لاک ڈائون، نرم لاک ڈائون، سمارٹ لاک ڈائون، سلیکٹڈ لاک ڈائون، ہفتہ اتوار لاک ڈائون لگا کر اپنے تجربات ایسے کر رہے ہیں جیسے ہم نے کورونا کو بھگا بھگا کر مارنا ہے جبکہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے تو کمال کر دیا کیونکہ اب ان کی حکومت کو دو سال ہو گئے ہیں اور اپنی کمزوریوں کا ملبہ مسلم لیگ ن پر ڈالا نہیں جا سکتا تو سوا کروڑ سے زائد زندہ دلان لاہوریوں کو عجیب مخلوق اور جاہل کہہ کر اپنی ناکامی چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگیں۔

 سخت ردعمل پر صوبائی وزیر صحت نے معافی تو مانگ لی لیکن محترمہ ہمیشہ اسی حلقہ سے الیکشن لڑتی ہیں جہاں میں رہتا ہوں اور اس حلقہ کی عوام نے انہیں ہمیشہ مسترد کیا شاید اسی چیزکا غصہ نکال رہی ہیں اگرچہ خصوصی سیٹ پر منتخب ہو کر صوبائی وزیر صحت بن گئی ہیں تو انہیں صوبہ میں سب سے اہم نوعیت کی وزارت ملی ہے اور ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے عوام کو ان سے بہت سی توقعات بھی تھیں لیکن شعبہ صحت میں سب اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔

  لاہوری ہونے کی حیثیت سے ایک بات تو میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جب ہمسائے یاگردونواح میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو تو چوکنا ہونا پڑتا ہے مجھے یاد ہے کہ اسلامپورہ میں جب آج سے غالباََ پچیس سال قبل تیرہ قتل ہوئے تھے تو ہمارے محلے کے بڑوں نے کمیٹیاں بنا دی تھی کہ حالات خراب ہیں رات کو جاگ کر محلے کی حفاظت کی جاتی تھی یہ مثال اس لیے دی ہے کہ جب ووہان میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہاتھا تو ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے ہمیں احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے پہلے سے ہی کوئی حکمت عملی یا پلاننگ کر لینی چاہیے تھی کہ اگرکورونا وائرس ہمارے ملک میں آئے گا تو ہمیں کیا کرنا ہے لیکن صد افسوس کہ جنہوں نے فکرکرنی تھی وہ توخودکنفیوز ہیں اور تجربات کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں چلی گئیں لیکن آج بھی حکومتی غیرسنجیدہ رویہ اور اب مسلم لیگ ن پر الزام لگانے کی بجائے لاہوریوں پر الزام لگانا ظاہر کرتا ہے کہ ان لوگوں کی قابلیت کا کیا حال ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے صورتحال بگڑتی جا رہی ہے اور حکمران وقت محض پریس کانفرنس کرنے کے علاوہ ابھی تک کچھ نہیں کر پا رہے جبکہ قرنطینہ سنٹرزکی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے جس میں مریضوں کا ایک دفعہ اگرکورونا ٹیسٹ مثبت آ جائے اور قرنطینہ سنٹر میں ایک دن ٹیسٹ کر کے تین سے چار دن پوچھا نہیں جاتا اور پھر وہ ٹیسٹ ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ حکومت کی نالائقی نہیں تو اور کیا ہے کہ عام شہری سے آپ پوچھ لیں کہ شدید بیمار ہو جانے کے باوجود وہ ہسپتال نہیں جانا چاہتا اگر میری بات کا یقین نہیں آتا تو کسی بھی عام شہری سے پوچھ لیں۔

حکومت کہتی ہے کہ کورونا وائرس عالمی وباء ہے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب ڈینگی لاہور میں آیا تھا تو اس وقت مسلم لیگ ن نے لاہوریوں کو جاہل نہیں کہا تھا بلکہ شہباز شریف نے اسی روز صبح چھ سے سات بجے صوبائی وزراء اور متعلقہ افرادکے ساتھ میٹنگ کرنا شروع کر دی تھی جس کی رپورٹ وہ دوپہر بارہ بجے سے تین بجے لیتے اور جس کے بعد شام چھ بجے دوبارہ میٹنگ کرتے اور رات نو بجے اچانک دوروں پر نکل جاتے جس کی وجہ سے یہی ڈینگی جس کے باعث خدشہ تھا کہ بڑے پیمانے پر تباہی مچائے گا اور لاکھوں افراد کی جان کو خطرہ تھا نہ صرف کنٹرول ہوا بلکہ شہباز شریف کے اقدامات کی نہ صرف سری لنکن بلکہ دیگرممالک کے ماہرین نے بھی تعریف کی جبکہ بطور وزیراعلیٰ پنجاب انھوں نے ڈینگی کا ٹیسٹ نوے روپے میں کر دیا جبکہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ تو غریب کیا متوسط طبقہ کا شخص بھی آٹھ سے نو ہزار روپے میں کیسے کروائے۔

  کورونا وائرس کی صورتحال بگڑتی جارہی ہے اور حکومت آج بھی کورونا وائرس کوکنٹرول کرنے میں اپوزیشن کیخلاف ہی متحرک ہے۔ میاں شہباز شریف بائیس مارچ کو جب برطانیہ سے اسلام آباد پہنچے تو اسی دن اسلام آباد سے موٹر وے لاہور تقریباََ دس بجے پہنچ گئے تھے اور تقریباَ بارہ سے تیرہ گھنٹوں کے سفرکے بعد لاہور پہنچتے ہی بطور مسلم لیگ ن صدر متحرک ہو گئے اور بغیر آرام کیے دوپہر دو بجے اس دن سابق صوبائی وزراء صحت سائرہ افضل تارڑ، خواجہ سلمان رفیق، خواجہ عمران نذیر، ڈپٹی سیکرٹری جنرل مسلم لیگ ن عطااللہ تارڑ کے ساتھ ویڈیولنک میٹنگ کی کہ کورونا وائرس کوکنٹرول کرنے کیلئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور اپوزیشن میں ہونے کے باوجود بھی ہر ممکن وسائل استعمال کرنے ہیں اور اسی لیے پینتیس ہزار سے زائد میڈیکل سٹاف میں حفاظتی لباس تقسیم کیے جبکہ شہباز شریف نے جو ایک اور سب سے اہم کام کیا وہ راشن کی تقسیم تھی۔

 بطور پارٹی صدر انہوں نے ملک بھر میں ممبران قومی و صوبائی اسمبلی و ٹکٹ ہولڈر و سابق بلدیاتی نمائندوں اور لیگی رہنمائوں کو ہدایت کی کہ ہرلیگی رہنماگلی محلے میں راشن کی تقسیم کرے یہ اس لیے ضروری تھا کیونکہ لاک ڈائون کی وجہ سے کئی سفید پوش لوگوں کے گھروں کا چولہا ٹھنڈا ہو گیا تھا خصوصاََ جو مزدور دیہاڑی دار طبقہ تھا وہ شدید پریشان تھا اور سفید پوش لوگ تو کسی کے آگے اپنا ہاتھ بھی نہیں کر سکتے، کورونا وائرس سے کیسے نمٹا جائے قومی اسمبلی میں اجلاس تھا اور اس اجلاس میں جب وزیراعظم عمران خان آئے تو اپوزیشن نے ان کی گفتگو سنی لیکن جب اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میاں شہباز شریف کورونا وائرس کوکنٹرول کرنے کے حوالے سے اپنی تجاویز دینے لگے تو عمران خان چلے گئے جس پر شہباز شریف نے جہاں واک آئوٹ کیا وہیں وزیراعظم کی سنجیدگی کا اندازہ بھی لگا لیں کہ جس وقت قوم کی جانوں کی بات ہو تو اس وقت سیاست کرنے کی بجائے ملکی مفاد میں سوچنا چاہیے خیر اس سے آگے چلتے ہیں جب مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے شہباز شریف کی ہدایت کے مطابق فلاحی کام شروع کر دیے اور شہباز شریف خود اس کی نگرانی کرنے لگے تو حکومت وقت کو یہ پریشانی ہو گئی کہ ہمارے کرنے والے کام تو اپوزیشن کر رہی ہے۔

پھر روایتی انداز اپناتے ہوئے شہباز شریف کو خاموش کروانے کیلئے نیب کا بلاوا آ گیا اور ایسے حالات میں جب خود حکومت مہم چلا رہی ہو کہ غیر ضروری گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کریں کورونا وائرس کا خدشہ ہے وہیں پر شہباز شریف کو نیب بلانے کی ضد کی جانے لگی لیکن جب وہ نہیں گئے تو بار ہا کہا پھرایک دفعہ چلے گئے تو اس کے بعد دوبارہ بلاوا آتا ہے اور دو جون کو جب بلایا جاتا ہے تو مسلم لیگ ن کی جانب سے خط لکھا جاتا ہے کہ شہباز شریف کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر نہیں آ سکتے سکائپ پر سوال پوچھ لیں لیکن جب بات نہیں مانی جاتی تو گھر پر ریڈ کی جاتی ہے جس کے بعد تین جون کو ہائیکورٹ سے ضمانت کی درخواست موصول ہو جاتی ہے لیکن ایک اور بلاوا آتا ہے اور نوجون کو نیب پیشی کے بعد شہباز شریف کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ جاتا ہے جس کے بعد وہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس موت کے سائے کورونا وائرس کی صورت میں آسمانوں پر ہوں اس وقت بطور سربراہ ریاست اس کو کنٹرول کر کے لاکھوں قیمتی زندگیاں بچانے کی ضرورت ہے یا شہباز شریف کو صرف اس جرم کی سزا دینا کہ وہ وطن واپس آتے ہی کورونا وائرس کے خلاف کیوں متحرک ہوگئے تھے شہباز شریف کورونا وائرس کے خلاف متحرک ہوئے تھے حکومت کے خلاف نہیں۔

مسلم لیگ ن کا اس حوالے سے واضح طور پر کہنا ہے کہ عمران خان انتقام کے اس مقام پر چلے گئے ہیں کہ اس وقت ان کا مقصد شہباز شریف کا احتساب نہیں بلکہ کسی طریقے سے انہیں گرفتارکرنا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شہباز شریف کینسر سروائیور ہیں اورکورونا وائرس ان کی زندگی کیلئے خطرناک ہے۔ وقت کی اہم ضرورت اس وقت کورونا وائرس سے نمٹنا اورگرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنا ہے جو موجودہ حالات میں تو درست ہوتے ہوئے دکھائی دیتے نہیں