انوکھا قصبہ جہاں صرف 2 ہی لوگ رہائش پذیز ہیں

انوکھا قصبہ جہاں صرف 2 ہی لوگ رہائش پذیز ہیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(سٹی42)عالمگیر کورونا وباء نے معاملات زندگی کو بری طرح متاثر کرکے رکھ دیا تھا،دنیا بھی میں پھیلی اس وبا نے زیادہ تباہی بڑی سپر پاور امریکہ میں مچائی،دیگر ممالک بھی کی زد میں آگئے،لوگوں نے کورونا کنٹرول اور اپنی حفاظت کے لئے بہتر اقدامات اٹھائے، دنیا میں ایک ایسا قصبہ سامنے آیا جس میں صرف 2 لوگ مقیم ہیں اور مکمل کورونا ایس او پیز کا خیال کررہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق چین کےصوبے ووہان سے نکلنے والی زہریلی وبا نے لاکھوں کی تعداد میں اپنا شکار کرتے ابدی نیندی سلادیا، کورونا کی لہر میں اضافے نے دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کو متاثر کیا، ہلاکتوں میں امریکہ سرفہرست کیونکہ وہاں وبا کے تیز وار جاری رہے تاحال ابھی بھی کورونا تھما نہیں، پاکستان سمیت 190 سے زیادہ ممالک کے افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہلاکتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔لوگوں کی جانب سے کورونا ایس او پیز کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے سنگین صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی دوسری لہر کی گھنٹی بجادی۔

حفاظتی تدابیر اپنانے کی ہدایات جاری کیں تاکہ مزید ہلاکتیں نہ ہوں۔

سماجی دوری اور فیس ماسک کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے مگر بیشتر افراد اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔دنیا میں ایک ایسا انوکھا قصبہ پایا گیا جہاں کی آبادی صرف 2 لوگوں پر  محیط ہے،دونوں ہمیشہ فیس ماسک پہنتے ہیں اور کورونا ایس او پیز پر ملکمل عمل پیرا ہیں،یہ لوگ اٹلی کے خطے امبریا کے قصبے نورٹوسک مقیم ہیں،ایک 82 سالہ گیوانی کاریلی اور دوسرے 74 سالہ گیمپیرو نوبیلی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق  گیوانی کاریلی اورگیمپیرو نوبیلی رشتہ دار ہیں ایک ساتھ رہتے ہیں مگر سماجی فاصلہ اور حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد ہیں،ان کا کوئی پڑوسی بھی نہیں،قصبے سے باہر بھی نہیں جاتے۔دنوں ملتے ہوئے 2 میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔

82 سالہ کا کہناتھا کہ 'میں اس کورونا وائرس سے مرنے کی حد تک خوفزدہ ہوں، اگر میں بیمار ہوگیا تو اپنا خیال خود رکھنا ہوگا، آخر کون میری نگہداشت کرے گا؟میں بوڑھا ہوچکا ہوں، مگر اپنی بھیڑوں، شہد کی مکھیوں اور دیگر چیزوں کا خیال رکھنے کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہوں۔

کوروباایس او پیز پر عمل کرنا گیوانی کاریلی اور گیمپیرو نوبیلی کے لیے وہ ایک مقدس قانون ہے۔اس قصبے کے بیشتر باسی روزگار کی تلاش اور زلزلے سے بچنے کے لیے روم یا اٹلی کے دیگر خطوں میں منتقل ہوگئے۔
 

M .SAJID .KHAN

Content Writer