سی سی پی او اور ایس پی کی لڑائی‎

سی سی پی او اور ایس پی کی لڑائی‎
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

قیصر کھوکھر: لاہور پولیس میں ایک اہم واقعہ ہوا ہے کہ سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ اور ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کے درمیان توں توں میں میں ہوئی ہے اور دونوں نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے ہیں۔ آئی جی پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے ایس پی عاصم افتخار کو تبدیل کر دیا ہے۔

اس سارے واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پولیس کا رویہ ایک اہم ایشو بن گیا ہے اور جس طرح پولیس افسران اور ملازمین عوام سے رویہ رکھتے ہیں، اسی طرح سینئر افسران اپنے جونیئر افسران کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھتے ہیں اور رینکر ہونا تو پولیس سروس میں ایک گناہ سمجھا جاتا ہے اور سینئر پی ایس ایس افسران رینکرز پولیس افسران کو سرے عام ڈانٹتے ہیں، گالیاں تک دیتے ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔

یہ ایک مکافات عمل ہے کہ اگر سی سی پی او لاہور اپنے ہی آئی جی پولیس شعیب دستگیر کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور اجلاس میں انہیں برا بھلا کہیں گے تو لا محالہ ایس پی او جونیئر بھی سی سی سی پی او سے وہی سلوک کریں گے۔ جب سے سی سی پی او شیخ محمد عمر نے چارج سنبھالا ہے اس وقت سے لاہور پولیس میں آئے روز ایشو بن رہے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ سی سی پی او لاہور سے لاہور پولیس کے معاملات سنبھالے نہیں جا رہے ہیں اور جونیئر ان سے تنگ ہیں۔ دوسرا پولیس میں نظم و ضبط کا شدید فقدان ہے اور جونیئر افسران اپنے ہی سینئر افسران کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ ماضی کے ڈی پی او رحیم یار خان سہیل ظفر چٹھہ نے اپنے ہی اس وقت کے آر پی او شاہد حنیف کو تبدیل کرا دیا تھا اور یہ واقعہ بھی بیورو کریسی کے حلقوں میں باز گشت کرتا رہا ہے۔

پولیس میں فوج کی طرز پر ڈسپلن ہونا چاہئے اور کورٹ مارشل کا قانون ہونا چاہئے تاکہ یہ ادارہ مضبوط ہو سکے۔ پولیس میں پی ایس پی افسران کا مکمل طور پر ہولڈ ہے اور جونیئر اور رینکرز پولیس افسران کو عزت نہیں دی جاتی ہے۔ کانسٹیبل سے انسپکٹر تک کے ملازمین کو تو اچھوت سمجھا جاتا ہے اور ایس پی اور ایس ایس پی اور ڈی آئی جی رینک کے پولیس افسران کا اس پولیس ملازمین کیساتھ ہتک آمیز رویہ ایک عام بات بن گئی ہے۔

لاہور پولیس میں کئی ایک واقعات ہو چکے ہیں جب ایس ایس پی نے ایس ایچ او کو فون پر گالیاں دیں اور دونوں کی بعدازاں توں توں میں میں ہو گئی لیکن فوج میں معاملہ الٹ ہے فوج میں جونیئر ملازمین کی سینئر افسران عزت کرتے ہیں اور عزت سے ہی پیش آتے ہیں۔ فوج میں سپاہی رینک کو عزت دی جاتی ہے کیونکہ جنگ ہو یا امن ہو شہادت اور قربانی سپاہی رینک کے ملازمین ہی دیتے ہیں۔ لیکن پنجاب پولیس میں معاملہ الٹ ہے یہاں رینکرز کو ایک گالی سمجھا جاتا ہے اور رینکرز سے بدسلوکی کے عام واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ یہ رینکرز اس بات کا غصہ عوام پر نکالتے ہیں۔

اگر سینئر افسران جونیئر افسران کیساتھ عزت سے پیش آئیں تو ماتحت پولیس ملازمین عوام کے ساتھ بہتر رویہ سے پیش آئیں گے اس سے پولیس کا نظام تبدیل ہو جائے گا اور پولیس میں ایک واضح تبدیلی آ جائے گی اور تھانہ کلچر بھی تبدیل ہو جائے گا کیونکہ عوام کا پولیس سے سب سے بڑا ایشو یہ ہے کہ پولیس والے عوام سے بد تمیزی سے پیش آتے ہیں اور اس وجہ سے معاشرے میں کئی جرائم ہو جاتے ہیں لیکن ایک شریف شہری پولیس کے ڈر سے مقدمہ درج کرانے تھانے نہیں جاتا ہے۔

لاہور کے سی سی پی او کی اس سے پہلے دو انسپکٹر کیساتھ بھی توں تراں ہو چکی ہے اور بعدازاں سی سی پی او لاہور نے انہیں معاف کر دیا تھا۔ پولیس میں ڈسپلن اور ٹریننگ کا شدید فقدان ہے۔ اس پر نئے آئی جی پولیس کو کام کرنا چاہئے تاکہ پولیس میں بھی بہتری آ سکے اور عوام کا تھانہ کلچر کے بارے میں رائے بھی تبدیل ہو سکے۔

ایس پی سی آئی اے کا تبادلہ کافی نہیں، اس واقعہ کی پنجاب حکومت کو آزادانہ انکوائری کرانا چاہئے تاکہ سی سی پی او لاہور اور ایس پی کیخلاف ایک سینئر ڈی ایم جی افسر سے انکوائری کرائی جائے اور سی سی پی او یا ایس پی میں سے جو کوئی بھی اس واقعہ کا ذمہ دار ہے اس کیخلاف انکوائرای کی جائے۔ اگر سی سی پی او کا قصور ہے تو سی سی پی او کو عہدہ سے ہٹایا جائے اور اگر ایس پی کا قصور ہے تو ایس پی کیخلاف محکمانہ کارروائی کی جائے اور ڈسپلن پر کوئی بھی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔

پولیس فورس کا کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور معاشرے سے جرائم کا خاتمہ کرنا ہے، مگر موجودہ صورتحال میں پولیس فورس عوام کو ریلیف دینے کے بجائے افسران آپس میں ہی دست و گریبان ہیں جس کا پولیس فورس کی کریڈیبلٹی پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے آئی جی پولیس کو خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ فورس کے اندر ڈسپلن پیدا ہو اور افسران و ماتحت ایک دوسرے کا احترام کریں۔ 

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر