ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں: ترجمان پاک فوج

ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار
کیپشن: DG ISPR
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 مانیٹر نگ ڈیسک : ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں نہ قبول کریں گے وہ مقررہ تاریخ 29 نومبر 2022 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ جمہوریت ہی ملک کا مستقبل ہے،پاکستان میں کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔افواہوں کی بنیادپر کردار کشی قبول نہیں کریں گے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان  کی طرف کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تو آنکھ نکال دینگے۔  عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ پاک فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں ، ہم اس سے باہر رہنا چاہتے ہیں فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے  ان کا کہنا تھا کہ جوہری اثاثوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔  جوہری اثاثے کسی ایک سیاسی جماعت کا کریڈٹ نہیں۔ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں۔ ''نیوٹرل'' کا لفظ فوج کے موقف کو پوری طرح بیان نہیں کر پایا ،ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں ہے۔ اعلامیے میں اندرونی معاملات میں مداخلت کا ذکر ہے اور غیر سفارتی زبان استعمال ہوئی ہے۔ہ سائفر جس دن آیا تھا آئی ایس آئی نے اسی دن اپنا کام شروع کردیا تھا سائفر انتہائی ٹاپ سیکرٹ اور دراصل وزارت خارجہ کی ڈومین ہوتی ہے ڈی مارش صرف سازش پر نہیں دیا جاتا۔ ا سکی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ امریکی سفیر کو ڈی مارش دینا ایک سفارتی عمل تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ  نو اپریل کو وزیراعظم ہاؤس میں عمران خان سے نہ آرمی چیف ملے نہ ڈی جی آئی ایس آئی۔ فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آراو دینے والی۔ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ادارے اپنا کام کررہے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی سکیورٹی وزارت داخلہ کے انڈر آتی ہے وہ خیال رکھیں گے۔  ۔سیاسی استحکام کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی  کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ سروسز چیفس کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان کو افطار ڈنر کی دعوت کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی دعوت ان کے علم میں نہیں۔   وزیراعظم شہباز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں آرمی چیف کے شرکت نہ کرنے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس دن خرابی طبعیت کے باعث آرمی چیف دفتر ہی نہیں آئے تھے۔ فالز فلیگ آپریشن بھارت کا طرہ امتیاز رہا ہےسیاسی جماعتوں کی جانب سے آرمی چیف پر تنقید سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف ایک ادارے کے سربراہ ہیں اور اگر ادارے کے سربراہ پر بات کی جا رہی ہے تو حکومت وقت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقدامات اٹھائیں۔ ہماری تو زبان نہیں ہے اور نہ ہم کسی ٹی وی چینل ہر جا کر ترکی بہ ترکی جواب دے سکتے ہیں  فوج یونٹی آف کمانڈ پر چلتی ہے۔جس طرف آرمی چیف دیکھتا ہے 7لاکھ فوج اس طرف دیکھتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجواہ سے سابق وزیراعظم عمران خان کا باہمی عزت واحترام والا تعلق تھا،ہے اوررہے گا۔ عمران خان کے جلسے جلوسوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاست اور جمہوریت  کا حصہ ہے ۔ لوگ سڑکوں پر آکر اپنے رہنماؤں سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ آزاد فضا ہے جس کے دل میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے۔  باقی جو کرنا ہے وہ سیاست دانوں نے کرنا ہے۔  یہ ہمارا فیصلہ نہیں کہ کس حکومت کے ساتھ چلنا ہے اور کس کے ساتھ نہیں ۔ ہم نے ہرمنتخب حکومت کے ساتھ چلنا ہے   ہر حکومت سے بہترین تعلق رکھنا فوج کی ذمہ داری ہے۔ تحریک طالبان پاکستان سے کوئی مذاکرات نہیں  ہورہے۔ 

انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا سیاستدانوں کو آرمی چیف نے کہا کہ جب میں کسی سے نہیں ملتا تو سیاست دان حضرات کیوں مجھ سےباربار ملنے کی درخواست کرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے دورہ روس فوج کی رضامندی سے کیا۔ یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ جس دن سابق وزیراعظم عمران خان ماسکو ہوں گے اسی دن روس یوکرائن پر حملہ کردے گا۔  فوج مستقبل میں بھی اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔ فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا ۔اگر اڈے مانگے جاتے تو فوج کا موقف بھی ایبسولیوٹلی ناٹ والا ہی ہوتا۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا  کہ ریٹائڑد ملٹری افسران کی فیک آڈیوز چلا کر ملک میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔جمعرات کو پریس بریفنگ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے، یہ مہم نہ پہلے کامیاب ہوئی اور نہ آئندہ ہونے دیں گے۔ افواہوں کی بنیاد پر کردار کشی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے غیر ملکی مراسلے کے حوالے سے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ استعمال ہوا میرا خیال ہے کہ اس میں سازش کے لفظ کا ذکر نہیں ہے۔ پاکستان کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے خود فوج کی قیادت سے رابطہ کیا تھا، اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ حکومت کو کوئی آپشن نہیں دیا تھا۔یہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے  نہیں رکھی گئی تھیں۔انہوں نے بتایا: وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف سے رابطہ کیا گیا کہ جب یہ ڈیڈ لاک برقرار تھا تو اس میں کوئی بیچ بچاؤ کی بات کریں۔یہ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے کو تیار نہیں تھی، تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم آفس گئے اور وہیں طور پر یہ تین پہلو زیر غور آئے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ تحریک عدم اعتمادکو اسی طرح جانے دیں، دوسرا تھا کہ عمران خان استعفیٰ دیں، تیسرا یہ تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کردیں اور نئے الیکشن کی طرف جائیں۔انہوں نے مزید بتایا: جس پر عمران خان نے کہا کہ تیسرا آپشن ٹھیک ہے، پھر جنرل باجوہ اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم کے پاس گئے، اس کے اوپر سیر حاصل بحث کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، ہم پلان کے مطابق جائیںگے۔کوئی آپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں دیا گیا، نہ ہم نے رکھا۔

پریس کانفرنس کے دوران میجر جنرل بابر افتخار نے 12 اپریل کو ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کی تفصیلات بتائیں اور کہا: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں تمام کمانڈرز نے شرکت کی، کانفرنس کے شرکا کو پاکستان آرمی کی ہپیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حوالے سے درپیش چیلنجز پر سکیورٹی اور انٹیلی جنس بریفنگ دی گئی اور ان سے نمٹنے کے لیے وضع کی گئی حکمت عملی سے آگاہ کہا گیا۔انہوں نے کہا،فارمیشن کمانڈرز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جمہوریت، اداروں کی مضبوطی اور سب اداروں کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی سب کے مفاد میں ہے۔

Muhammad Zeeshan

Senior Copy Editor