ویب ڈیسک: ابنِ صفی ایک فکشن رائٹر جس نے جو لکھا سائنس دانوں نے اسے عملی جامہ پہنادیا۔
اردو ادیبوں میں ابن صفی ایک منفرد مقام کے حامل ہیں۔ شروع شروع میں ادب کے سکہ بند ناقدین نے انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھا مگر پھر سبھی ان کے قلم کے اسیر ہوتے چلے گئے۔ابن صفی کا قلمی سفر 28 سال پر محیط ہے۔ اس سفر کے دوران انھوں نے ڈھائی سو کے لگ بھگ ناول تخلیق کیے جو جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔جنوری سنہ 1952 میں جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ’دلیر مجرم‘ اور اگست 1955 میں عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ شائع ہوئے۔اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔
ان ناولوں میں انھوں نے ایک نئی دنیا ایجاد کی جس میں نت نئے طریقوں اور ایجادات کی مدد سے جرائم کا خاتمہ کیا جاتا تھا۔فرانسیسی مفکر اور ناول نگار جولز ورن کو ’بابائے سائنس فکشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے معروف ناولوں میں ’زمین کے بیج تک کا سفر‘، ’دنیا کے گرد 80 روز میں‘ اور ’سمندر کے نیچے ہزار لیگز (فاصلہ پیما)‘ وغیرہ شامل ہیں۔
کہانیاں لکھنے والا قلمی تصویریں بناتا ہے،سائنس دان ان تصویروں کو جیتی جاگتی دنیا میں حقیقت کا رنگ دیتا ہے:
فرانسیسی مفکر اور ناول نگار جولز ورن کو ’بابائے سائنس فکشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے معروف ناولوں میں ’زمین کے بیج تک کا سفر‘، ’دنیا کے گرد 80 روز میں‘ اور ’سمندر کے نیچے ہزار لیگز (فاصلہ پیما)‘ وغیرہ شامل ہیں۔جولز ورن نے زیر آب چلنے والے ایک ایسے بحری جہاز کا تصور دیا جو بجلی سے چلتا تھا۔ اس زیر آب جہاز کا نام ’نوٹیلس‘ رکھا گیا ۔ اس تصور نے سائمن لیک نامی لڑکے کو اتنا متاثر کیا کہ وہ ایسی ایجاد کرنے پر تل گیا اور بالآخر دنیا کی پہلی آبدوز بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ مغربی سائنس فکشن میں ایسی بے شمار ایجادات کا تذکرہ وضاحت کے ساتھ ملتا ہے جو بعدازاں معرض وجود میں آئیں۔
ایک سائنس فکشن رائٹر جس نے طلسم ہوشرباکو سائنس فکشن میں تبدیل کر دیا:
ابن صفی کی ناولوں میں سائنسی فکشن کا انداز بھی بے حد اہم ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ابن صفی ہی وہ ادیب ہیں جنھوں نے اردو میں جاسوسی، سائنس فکشن کی ایک نئی طرح کی ابتدا کی ہے۔ ابن صفی کی کہانیوں کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ان میں بھوت پریتوں اور راکھشسوں کے مصنوعی خیال اور توہم پرستی کو رد کیا گیا ہے اور ہر واقعے کی سائنسی تشریح پیش کی گئی ہے۔ ‘ ابن صفی نے اپنے سائنس فکشن کے بارے میں لکھا کہ ’سائنس فکشن لکھنا آسان کام نہیں، پھر بھی میں نے کوشش کی کہ اپنے ذہین پڑھنے والوں کو کسی حد تک مطمئن کر سکوں۔ محیر العقول اور بعیدازقیاس واقعات کا یکجا کر کے کہانی کی شکل دے دینا آسان ہے لیکن ان کا جواز پیش کرنا ہی حقیقتاً اس طلسمی ہوشربا کو سائنس فکشن میں تبدیل کرنا کہلاتا ہے اور تھوڑے وقت میں یہ ایک مشکل کام ہے۔‘شاید تخیل کی یہی قوت ابن صفی کی کامیابی کا راز ہے جس کی وجہ سے ان کے مداحین اور قارئین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
ابن صفی جاسوسی کہانیوں میں عوام کو سائنسی سوچ کی طرف لائے:
جاسوسی دنیا کے ناول ’طوفان کا اغوا‘ میں ابن صفی نے فولادمی نامی روبوٹ کو پیش کیا تھا۔ آگے چل کر روس میں اس کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اس تجربے کا ذکر خود ابن صفی نے اپنے ایک پیش رس میں کیا تھا۔ابن صفی نے اپنے ناولوں میں الیکٹروگس اور فے گراز کا ذکر سنہ پچاس کی دہائی میں کیا تھا۔ اس کے بہت بعد میں الیکٹروگس، لیزر گن کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا جبکہ فے گراز کو ہم اڑن طشتری کہہ سکتے ہیں۔
عمران سیریز کے ناول ’سبز لہو‘ میں ایک شخص پر فائر کیے جاتے ہیں اور اس کے جسم پر موجود لباس میں سے سبز رنگ کا رقیق مادہ بہہ نکلتا ہے۔ فائر کرنے والے اسے کوئی مافوق الفطرت وجود سمجھتے ہیں۔اس ناول کے کئی برس بعد ہالی وڈ میں Alien نامی فلم بنی تھی جس میں ایلین کا خون سبز رنگ کا دکھایا گیا تھا۔ بعدازاں امریکی ٹی وی سیریل X-Files میں بھی کئی مقامات پر یہی بات دہرائی گئی۔
کلوننگ جدید دنیا کی ایک خطرناک ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے ایک جیسے انسان تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔اس سے ملتا جلتا تصور ابن صفی نے جاسوسی دنیا کے ناول ’جنگل کی آگ‘ میں سنہ 1960 میں ایک ایسی مشین کو پیش کر کے کیا تھا جس کے ایک جانب تین لاغر انسانوں کو ڈالا جاتا ہے اور دوسری جانب سے ایک طاقتور گوریلا تخلیق پاتا تھا۔
ابن صفی نے عمران سیریز کے ناول ’زلزلے کا سفر‘ کے پیش رس میں اپنے ناولوں میں پیش کی جانے والی سائنسی ایجادات کے بارے میں لکھا تھا: ’دھوئیں کا حصار بالآخر ٹوٹ گیا۔ دھوئیں کے حصار کے اندر کیا تھا؟ کتنی بڑی تباہی کا سامان پروان چڑھ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے آپ اسے بھی طلسم ہوشربائی پرواز تخیل سمجھ کر کچھ دیر مجھ پر ہنس لیں لیکن دس سال کے اندر اندر آپ ایسے ہی کسی تباہ کن حربے کے وجود سے ضرور آگاہ ہو جائیں گے۔‘
’یہ ساری ایجادات جو اس وقت آپ کے معمولات زندگی میں داخل ہو کر رہ گئی ہیں بہت پہلے تخیل پرست آرٹسٹوں کی ’پینک‘ ہی سمجھی گئی ہوں گی لیکن آج آپ انھیں خود برت رہے ہیں۔ تیس سال قبل جب ہالی وڈ نے چاند کے سفر پر فلمیں بنائی تھیں تو امریکہ کے سنجیدہ افراد نے ان کا بے تحاشا مذاق اڑایا تھا لیکن آج سے سے پہلے امریکہ ہی کو یہ فخر حاصل ہوا ہے کہ اس کے باسی چاند پر سچ مچ چہل قدمی کر آئے ہیں۔‘