پی آئی اے کی نجکاری میں 15 دن کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے، عبدالعلیم خان

پی آئی اے کی نجکاری میں 15 دن کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے، عبدالعلیم خان
کیپشن: Abdul Aleem Khan, file photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

وقاص عظیم: وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری میں 15 دن کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی نج کاری میں 15 دن کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے، پی آئی اے کے اظہار دلچسپی جمع کرانے میں مزید توسیع نہیں ہوگی۔ پی آئی اے کی نج کاری میں 10 معروف کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کی ہے، اظہار دلچسپی کی کمپنیوں نے 15 دن کا مزید وقت مانگا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کو پاکستان سے محبت ہے، پورا اعتماد ہے کہ بلاول بھٹو سے ملاقات کرکے انہیں قائل کرلیں گے۔

 عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نج کاری میں تین مقامی ایئر لائن بھی انٹرنیشنل کمپنیوں کے ساتھ کنسورشیم بنا کر آنا چاہتے ہیں۔ پی آئی اے کو 830 ارب کا نقصان پہچانے والوں کو نج کاری میں اپنا مفاد نظر نہیں آ رہا، خسارے کا شکار تمام اداروں کی نج کاری ترجیح ہے۔ اسٹیل ملز، پی آئی اے اور ڈسکوز معشیت پر بوجھ ہیں،  پاکستان کی ترقی روکنے میں نقصان کرنے والے اداروں کا کردار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام ایئر لائن کا مل کر بھی پی آئی اے کے مقابلے میں حصہ کم ہے۔ پی آئی اے کے پاس جدہ، مدینہ،چین اور ہانگ کانگ جیسے روٹس ہیں، پی آئی اے لندن، واشنگٹن اور ٹورنٹو کی براہ راست فلائٹس رکھتا ہے، جس دن نئے جہاز آگئے اسی دن پی آئی اے منافع میں چلی جائے گی۔ نجی شعبہ اور سرمایہ پی آئی اے میں موجود منافع کو سمجھتے ہیں۔ پی آئی اے کی نج کاری کا عمل 100 شفاف اور میڈیا کے سامنے ہوگا۔پی آئی اے ملازمین کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کے پاس دنیا کاے بہترین پلائثس اور عملی موجود ہے۔ پی آئی اے کے سالانہ 100 روپے کے نقصانات سے رقم کنوئیں میں پھینکنے کے برابر ہے۔ 
وزیر نجکاری کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کے اربوں کے نقصان نجکاری کرکے بچائیں تو رقم فلاحی منصوبوں پر خرچ ہوسکتی ہے ، سالانہ 400 سے 500 ارب کے نقصان کرنا بہت زیادتی ہے۔ اب 6 سے 7 ڈسکوز کو نجکاری کرنا چاہتے ہیں۔ اسٹریٹجک نوعیت کی صرف 3 ڈسکوز سرکاری تحویل میں رکھنا چاہتا ہیں۔ فرسٹ ویمن بینک، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور بجلی گھر بھی پرائیوٹائز کرنا چاہتے ہیں۔