(قیصرکھوکھر) سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے سول سروس جوائن کرنے والے نوجوان افسر جو کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہ اچانک عوام کے لئے ایک نئی مخلوق کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ افسر شاہی اپنے آپ کو ایک اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہوئے عوام کےلئے اپنے دروازے بند کر دیتے ہیں اور اپنے دفاتر کے باہر دربان بٹھا دیتے ہیں تاکہ جتنا زیادہ عوام کو کم ملا جائے اور اتنے ہی ایشو کم حل کرنا پڑیں گے۔ افسر شاہی کو بار بار وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کی جانب سے اوپن ڈور پالیسی کا حکم ملتا ہے، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
اوپن ڈور پالیسی ایک اچھی پالیسی ہے لیکن اگر اس پر عمل کیا جائے کیونکہ ماضی میں افسران دیہی علاقوں میں جا کر کھلی کچہریاں لگاتے رہے ہیں اور اس سے عوام کو ریلیف بھی ملتا رہا ہے اور افسر شاہی کو عوام کے مسائل سننے اور سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ عوام اور افسر شاہی کے درمیان فاصلے بھی کم ہوتے ہیں لیکن یہ افسر شاہی اس بات کو سننے اور سمجھنے سے قاصر ہے ۔ حتیٰ کہ وزیر اعلی پنجاب نے ایک حکم جاری کیا ہے کہ صبح دس بجے سے 12بجے تک افسر اپنے دفاترمیں عوام کی شکایات سنیں اور ان شکایات کا ازالہ کریں۔ شکایات پر ایکشن بھی لیں لیکن پنجاب سول سیکرٹریٹ کی افسر شاہی اس بات کو سننے اور اس حکم پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔ اس دوران اکثر افسر یا تو سرے سے اپنے دفاتر میںموجود ہی نہیں ہوتے یا اس دوران اجلاس کے بہانے اپنے دفاتر کے باہر بیٹھے
دربان کو حکم دے رکھا ہوتا ہے کہ کسی کو بھی اندر نہ آنے دیا جائے۔ اس طرح جنوبی پنجاب اور دور دراز سے آئے سائلین بے چارے بے یارو مدد گار دفاتر کے باہر ان افسران کو ملے بغیر ہی واپس چلے جاتے ہیں یا جونیئر عملے کے ہاتھوں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت اپنا کام کرواکر گھروں کولوٹ جاتے ہیں۔ سابق سی سی پی او لاہورامین وینس کی کامیابی کی واحد وجہ یہ تھی کہ انہوں نے پولیس کے تمام دفاتر سے پرچی سسٹم اور چٹ سسٹم ختم کروا دیا تھا اور واک اِن کی بنیاد پر افسران کو عوام سے ملنے اور ان کی بات سننے کا پابند کیا تھا۔ جس سے عوام کو کافی حد تک ریلیف بھی ملنا شروع ہو گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو افسران کو عوام کے نوٹیفکیشن کئے گئے اوقات میں کوئی بھی اجلاس نہ رکھنے اور اجلاس کے دوران افسران کو میٹنگ روم میں بیٹھنے کا پابند کرنا چاہئے تاکہ جب اجلاس نہ ہو تو افسر شاہی اپنے دفاتر میں ہو اور عوام کے مسائل سنے اور ان کاا زالہ بھی کرے۔
اس طرح میٹنگز کے بہانے اپنے دفتر کے دروازے بند نہ کرائیں۔ سابق چیف سیکرٹری جاوید محمود کے دور میں افسران کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے دفاتر کے باہر دو گھنٹے بیٹھ کر عوام کے مسائل سنیں جس پر افسر شاہی میںکافی لے دے بھی ہوئی۔ اس سے عوام خوش لیکن افسر شاہی اند رخانے چیف سیکرٹری جاوید محمود سے ناراض بھی ہو گئی تھی۔ اوپن ڈور پالیسی کے حوالے سے چند دن عمل بھی ہوتا ہے لیکن پھر وہی پرانی روایت کہ عوام سے دور رہا جائے۔ پنجاب حکومت کے افسران کو اب ایک نیا حکم ملا ہے کہ ڈویژنل کمشنرز اور آر پی اوز ہر جمعہ کو بعد از نماز جمعہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں کھلی کچہری لگائیں گے ۔اسی طرح ڈی پی او اور ضلع کے ڈی سی کو بھی مشترکہ طور پر کھلی کچہری لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ عام آدمی کیلئے توکسی اے سی، تحصیلدار، اور ایس ایچ او کو ملنا محال ہوکر رہ گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری جب تک خود اوپن ڈور پالیسی پر عمل شروع نہیں کر تے ،اس وقت تک یہ افسر شاہی بھی اس اوپن ڈور پالیسی پر عمل نہیں کرے گی۔ پنجاب حکومت کو اب ڈویژنل اور ضلع کی سطح پر شروع کی گئی کھلی کچہریوں کے سلسلہ کو آئی ٹی سے منسلک کرنا چاہئے تاکہ چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ آفس لاہور میں بیٹھ پر اِن کھلی کچہریوں کو مانیٹر کر سکیں اور ان کھلی کچہریوں میں ملنے والی شکایات کوبھی از خود چیک کر سکیں گے اورشکایات پر لیے گئے ایکشن کی بھی نگرانی کی جا سکے گی۔ سول سیکرٹریٹ کا یہ حال ہے تو دوسرے 36اضلاع کے ڈی سی، ڈی پی او اور تحصیل سطح کے دفاتر کا کیا حال ہوگا؟ جہاں پر افسردفتر آنا ہی پسند نہیں کرتے اور سارا سارا دن عوام بے چارے ان افسروں کے دفاتر کے باہر بیٹھ بیٹھ کر تھک ہار کر واپس چلے جاتے ہیں اور پھر ملاقات کرنے کیلئے بھی انہیں کسی رکن اسمبلی کی سفارش کرانا پڑتی ہے۔
ہر افسر کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ عوام کے نوکر ہیں اور انہیں عوام کے ٹیکس سے تنخواہیں ملتی ہیں۔ لہٰذا انہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ عوام کے خادم بن کر کام کریں ۔ یہ چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ان افسران کو عوام کے تابع کریں اور اوپن ڈور پالیسی پر عمل کرائیں۔ عوام کے مسائل حل ہوں گے تو ہی حکومت اور بیوروکریسی کی گڈول بنے گی، ورنہ نئے اورپرانے پاکستان میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ جب عوام کے مسائل حل ہوں گے تو ہی عوام کے دل میں موجودہ حکومت کیلئے احترام کا جذبہ پیدا ہوگاجواقتدار کی بقاکیلئے بہت ضروری ہوتا ہے۔