سائفر کیس میں وزارت خارجہ کیوں مدعی نہیں ؟ چیئر مین پی ٹی آئی کے وکیل نے سوال اٹھا دیا

سائفر کیس میں وزارت خارجہ کیوں مدعی نہیں ؟ چیئر مین پی ٹی آئی کے وکیل نے سوال اٹھا دیا
کیپشن: Imran Khan, File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

روزینہ علی: سائفر کیس میں چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت  اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری ، عمران خان کے وکیل سلمان صفدر  نے دلائل دینے شروع کر دیئے ۔

 درخواست  پر تاخیر سے سماعت شروع ہوئی ، چیف جسٹس نے دیر سے آنے پر معذرت  کر لی، اسپیشل پراسکییوٹر راجہ رضوان عباسی، شاہ خاور اور ذوالفقار نقوی بھی روسٹرم پر  پہنچ گئے ، اسپیشل پراسکییوٹر رضوان عباسی نے جیل میں  ٹرائل کے دوران نقول کی فراہمی کا معاملہ اٹھا دیا ،رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ جیل ٹرائل کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء نے نقول وصول کیں لیکن دستخط نہیں کیے، 9 اکتوبر کو نقول ملزمان کو دیں گئیں، ملزمان کے وکلا نے کہا ہے کہ جیل سماعت کیلئے ان کی درخواست زیر التوا ہے۔

 چیف جسٹس  اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق  نے کہا کہ جیل سماعت کے خلاف درخواست پر فیصلہ کل یا پیر کو آ جائے گا، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت ان کیسز کو اکٹھا کرکے ہی سن لے، چیف جسٹس  نے جواب دیا کہ ضمانت کا کیس الگ ہے اس کو الگ ہی سنا جانا ہے، ٹرائل کے حوالے سے کوئی اسٹے آرڈر موجود نہیں، ٹرائل کورٹ نے ٹرائل اپنے لحاظ سے چلانا ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ٹرائل کو چلنے نہیں دے رہے،  عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ بڑے افسوس کی بات ہے ٹرائل کورٹ کے مسئلے یہاں لے کر آ گئے ہیں، یہ تو پنڈورا باکس کھلے گا تو ان کو پتہ چلے گا، یہاں ٹرائل کورٹ کے ایشوز پر بات کی گئی،  اگر ایسی بات ہے تو ہمارے بھی بہت سے ایشوز ہیں ،  چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو روکا اور کہا کہ سلمان صفدر صاحب رہنے دیں ہر بات کا جواب نہیں دیتے ۔

  ایف آئی اے اسپیشل پراسکیوٹر نے سائفر کیس میں مقدمے کے چالان سے متعلق وضاحت پیش کردی ،رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کی طرف سے ہدایات ہیں کہ عدالت کے سامنے صورتحال رکھی جائے ، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو چالان کی کاپیاں فراہم کردی گئی تھیں ، دونوں ملزمان نے چالان کی کاپیوں پر دستخط سے انکار کردیا ، چیف جسٹس  نے کہا کہ ٹرائل نے اپنے حساب سے چلنا ہے ، ضمانت کی درخواست کے اپنے ضابطہ کار ہیں ۔

 چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل  دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت یہ مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے، سیکشن فائیو کا اطلاق مسلح افواج کے معاملے پر ہوتا ہے ، اس کیس میں کوئی نقشے کوئی تصویر اور قومی سلامتی کا مواد لیک نہیں کیا گیا ، یہ قانون دشمن کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے متعلق ہے، بدقسمتی سے اس قانون کو سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی سیاسی قیدی ہیں، ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ سائفر کو ریکور کرنا ہے۔

  سائفر کو ریکور ہی نہیں کیا تو یہ کیسے پتہ چلا کہ اس کو ٹمپر کیا گیا ؟

  وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ان کے الزامات ہیں کہ سائفر کو اپنے پاس رکھا اور ردوبدل کی گئی ،انہوں نے سائفر کو ریکور ہی نہیں کیا تو یہ کیسے پتہ چلا کہ اس کو ٹمپر کیا گیا ؟نیشنل سیکیورٹی وہاں پر ہے جہاں دشمن ممالک کے ساتھ معلومات شئیر ہوئی ہوں ، ان کا کیس ہے سائفر ریکور کرنا ہے ،  ٹرائل کورٹ نے اس کیس میں ریمانڈ ہی نہیں دیا ، یہ کسی ایک شخص کا ایکشن نہیں تھا بلکہ ایک حکومت کا ایکشن تھا ،وزارت خارجہ کیوں اس کا مدعی نہیں وزارت داخلہ کیوں ہے ، 

 17 ماہ تک انتظار کیوں کیا گیا اس کے بعد ایف آئی آر کیوں درج ہوئی ۔

 سیکرٹ ایکٹ صرف فوجیوں کیلئے ہے 

 وکیل سلمان صفدر آج سے پہلے کسی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے خلاف سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں ہوئی، یہ بہت بدنامی کی بات ہے، یہ قانون صرف فوجیوں کے لیے ہے، میں نے یہ سوال اٹھایا یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں کیا،  وزارت داخلہ  اس کیس میں فریق کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ معاملہ چار فورمز پر رکھا گیا اور بعد میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ، کابینہ اجلاس، نیشنل سیکورٹی کمیٹی میٹنگ اور سپریم کورٹ میں بھی معاملہ ڈسکس ہوا، یہ معاملہ دو مرتبہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے پاس گیا، اس کے متن کے اوپر فارن ڈپلومیٹ کو بلا کر احتجاج کیا گیا، پراسیکیوشن کے سائفر کیس میں بہت سے لنکس مسنگ ہیں۔ 

 سائفر پاکستان ہائی کمیشن امریکہ سے وصول ہوا، سپیشل پراسیکیوٹر

 عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ سوموٹو کیس میں سائفر کا سارا معاملہ ڈسکس ہوا ، سپریم کورٹ میں اس کو کہیں نہیں کہا گیا کرمنل ایکٹ ہوا ہے،نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے پاس گیا کابینہ کے پاس گیا انہوں نے نہیں بتایا ، وکیل سلمان صفدر

 سائفر کی جو لینگوئیج ہے وہ قابل مذمت ہے نیشنل سیکورٹی کمیٹی میٹنگ کا لب لباب تھا ،سائفر کی زبان کے استعمال پر احتجاج کیا گیا ، سات مارچ 2022 کو سائفر وصول ہوا ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سائفر امریکہ سے وصول ہوا ؟ اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ پاکستان ہائی کمیشن امریکہ سے وصول ہوا ، نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ میں اس کے سامنے رکھا گیا ،9 اپریل 2022 کو کابینہ کی میٹنگ میں ڈی کلاسیفائیڈ کیا گیا ، چیف جسٹس ، اسپیکر ، صدر کے پاس بھیجا گیا ، ن کا کیس ہے کہ 7مارچ سے 11اپریل 2022 تک 33 دن سائفر عمران خان کے پاس رہا ، 11اپریل کو سابق وزیر اعظم شہباز شریف آتے ہیں ، 24 اپریل کو سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے میٹنگ کی یقینا انہوں نے سائفر پر میٹنگ کی ہو گی ، 30 ستمبر کو کابینہ ایف آئی اے کو کہتی ہے کہ سائفر وزیر اعظم ہاؤس سے مسنگ ہے ۔