میرے ساتھ جانبداری کی جا رہی ہے، جسٹس مظاہر کا شوکاز نوٹس کا جواب دینے سے انکار

Supreme Court of Pakistan, Justice Mazahar Ali Akbar Naqvi, City42, Supreme Judicial Counsel,
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری:جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے اپنے خلاف ریفرنس کی گزشتہ سماعت میں شوکاز نوٹس بھجوائے جانے کے بعد  اس نوٹس کا جواب دینے کی بجائےسپریم جوڈیشل کونسل کو جواب دینےسے انکار کر دیا، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس سمیت دیگر ارکان پر اعتراض کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے بھیجے گئے شوکاز نوٹس کا 10 نومنبر تک جواب دینے کے لئے ریفرنس کی گزشتہ ماہ 27 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں کہا گیا تھا۔

آج جب جواب بھیجنے کی آخری تاریخ آئی تو  جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے کونسل کی تشکیل پر ہی اعتراض اٹھا دیا۔


ذرائع کے مطابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق اور جسٹس نعیم اختر افغان پر اعتراض  کیا ہے۔ جسٹس مظاہر نے سپریم جوڈیشل کونسل میں درج ریفرنس اور شواہد کا تمام ریکارڈ بھی مانگ لیا ہے۔

 جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ارکان میرے بارے میں جانبدار ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا حصہ ہیں، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے ارکان کو میرے خلاف جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہونا چاہیے، انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہیے اور چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم افغان کو میرے خلاف کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ جانبدار سپریم جوڈیشل کونسل کا شوکار نوٹس بھی جانبدار انہ ہے، اس لئےاس کا جواب نہیں دیا جا سکتا، جسٹس نقوی نے موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اکثریت سے اپنی حتمی رائے صدر مملکت کو بھجوا سکتی ہے، جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی صرف اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے، آئین سپریم جوڈیشل کونسل کو رولزبنانے کی اجازت نہیں دیتا، چیف جسٹس اور جسٹس سردار طارق جوڈیشل کونسل کے رولزکوپہلے ہی غیر آئینی کہہ چکے ہیں۔

انہوں نے اپنے اعتراض میں کہا کہ شوکاز نوٹس دیتے ہوئے اپنی گزشتہ رائے تبدیل کرنے کی دونوں ججز نے کوئی وجہ نہیں بتائی،  میرے خلاف شکایات پر سپریم جوڈیشل کونسل میں بحث ہوئی نہ کسی سے معلومات لی گئیں، جسٹس سردار طارق کے کیس میں کونسل نے شکایت کنندہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا اور شواہد مانگے، میرے کیس میں شکایت کنندہ کو بلایا نہ ہی مزید معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا، جو موقع جسٹس سردارطارق کوکونسل کی جانب سے دیا گیا وہ مجھے نہیں ملا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا موقف ہے کہ انہیں بھیجے گئے شوکازنوٹس میں کوئی الزام ہی عائد نہیں کیا گیا،  انہوں نے دعویٰ کیا کہ شوکاز  نوٹس کے ساتھ منسلک 10شکایات میں غیر سنجیدہ الزامات ہیں جن کے شواہد بھی موجود نہیں ہیں،  جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ میرے خلاف کارروائی سیاسی ایما پر ہو رہی ہے، میرے خلاف کارروائی غیر قانونی اور نامناسب ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود پہلےہی میرےخلاف ریفرنس پر قانونی رائے دے چکے ہیں، جسٹس سردار طارق مسعود نےجسٹس عرفان سعادت کی حلف برداری تقریب میں صحافیوں سے ملاقات میں میرے بارے میں تضحیک آمیز گفتگو کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اپنے ریفرنس سے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سردار طارق اعتراض پر خود الگ ہو گئے تھے، میرے خلاف تمام شکایات فضول اور مفروضوں پر مبنی ہونےکی بنیاد پر مسترد کی جائیں۔