ویب ڈیسک: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اورجمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے ریاستی اداروں پر منظم حملوں میں ملوث ہونے کے سبب تحریک انصاف کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کا مطالبہ کر دیا، انہوں نے عمران خان کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کو توڑنا ان کے ایجنڈے پر تھا، ملک ان کے حوالے کر کے معاشرے کو تقسیم کر دیا گیا۔ تحریک انصاف کے خلاف ایک لمحہ ضائع کئے بغیر کارروائی کی جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہم کل سے جلاؤ، گھیراؤ کے مناظر دیکھ رہے ہیں، جی ایچ کیو کے دروازے توڑے گئے، ایسی جماعت اور عناصر کا خاتمہ ہونا چاہیے اور اگر کوئی بھی ادارہ ان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کیلئے داؤ پیچ کرتا ہے تو وہ بھی مجرم ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اپنی حکومت سے کہنا چاہتا ہوں جن لوگوں نے اداروں کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ کیا ان کے خلاف کارروائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کئی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا۔ جن تنظیموں نے ایسا کام کیا ان پر پابندی لگائی گئی۔ اب تحریک انصاف کے خلاف ایک لمحہ ضائع کئے بغیر کارروائی کی جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس قسم کے لوگ کیوں حکمران بنائے گئے اب کون حساب دے گا، ہم نے بھی جلوس نکالے، ملین مارچ کیے، ہم نے پندرہ لاکھ لوگوں کا اجتماع کیا ایک گملہ نہیں ٹوٹا تھا، ہم بھی تو ناراض تھے لیکن کوئی جلاؤ، گھیراؤ نہیں کیا، ہم نے اداروں کو اپنا ادارہ سمجھا، قومی تنصیبات کو کیوں نقصان پہنچا رہے ہو، اس حد تک جانا پھر بتائیں بغاوت کس کو کہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نیب نے عمران خان کو گرفتار کیا، جب نیب مخالفین کو پکڑتا تھا تو جائز آج ناجائز ہو گیا، احتساب کو انجام تک پہنچنا چاہیے، اداروں سے حدود میں رہ کر اختلاف کریں گے، اول دن سے موقف ہے عمران خان غیر ضروری عنصر ہیں، بیرونی لابیوں نے اس کو انجیکٹ کیا ہے اس کو نکالنا ہے۔اس قسم کے عناصر بارے ہماری رائے کی تصدیق ہو رہی ہے، ہم نے بارہ سال پہلے ان کو سیاست کا غیر ضروری عنصر قرار دیا تھا۔ ملک کو ان کے حوالہ کیا گیا اور یہ خود اس بات کی تصدیق کرتے ہیں، ایسا طبقہ پیدا کیا گیا ہے کوئی اسے نبوت کا درجہ دے رہا ہے، قوم ان سے اب حساب لے گی۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ کابینہ اجلاس میں آج اسی نکتہ پر کام ہورہا ہے کہ حکومت کہاں تھی اور کیا کرنا چاہیے۔