سوات اور گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے، شہری خوفزدہ

سوات اور گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے، شہری خوفزدہ
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(مانیٹرنگ ڈیسک) سوات اور گرد و نواح میں آج بروز جمعہ 10 فروری کو زلزلے ( Earthquake ) کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

زلزلہ پیماہ مرکز کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 4.4 ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ زیر زمین گہرائی 203 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی، جب کہ زلزلے کا مرکز پاک افغان تاجکستان کا سرحدی علاقہ تھا۔

ذرائع کے مطابق شہری کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئے۔فوری طور پر زلزلے سے کسی جانی اور مالی نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ ترکیہ اور شام میں 6 فروری بروز پیر کو 7.8 اور بعد ازاں 7.5 شدت کے زلزلے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 21 ہزار سے متجاوز کرگئی ہے۔ عالمی ادارے کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ حالیہ ترکیہ اور شام کے زلزلے میں متاثرین کی تعداد 2 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ موسم کی سختیوں کے باعث بھی متعلقہ علاقوں میں امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

چند روز قبل ترکیہ اور شام میں آنے والے ہولناک زلزلے کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھی کہ پاکستان کی سرحدی پٹی بھی خوف ناک زلزلے سے لرزے گی، جس کے بعد مجاز اتھارٹیز کی جانب سے اس افواہوں کی تردید کی گئی۔ سما سے خصوصی گفتگو میں ڈائریکٹر محکمہ موسمیات زاہد رفیع نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ترکیہ اور شام میں آئے زلزلے کا پاکستان سے غلط موازنہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ میں زلزلے کا مطلب یہ نہیں کہ اب پاکستان میں زلزلہ آسکتا ہے۔

زاہد رفیع نے بتایا کہ پاکستان میں فالٹ لائنز ہیں مگر ان کا ترکیہ کے زلزلے سے تعلق نہیں، زیادہ شدت کا زلزلہ لانے والی انرجی دوبارہ جمع ہونے میں سیکڑوں سال لگتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں 7 اعشاریہ کی شدت کا زلزلہ 2005 اور 2013 میں آچکا ہے۔

ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کا مزید کہنا تھا کہ اتنی شدت کے زلزلے کا ریٹرن پیریڈ اتنا جلدی نہیں آتا، ترکیہ میں جہاں زلزلہ آیا وہاں ماضی قریب میں اتنا بڑا زلزلہ نہیں آیا تھا۔

زاہد رفیع کے مطابق اتنی شدت کے زلزلے کیلئے انرجی جمع ہونے میں سیکڑوں سال لگے ہوں گے، ترکیہ کے زلزلے کو پاکستان سے ملانا درست نہیں۔سوشل میڈیا پر کی گئی متعدد پوسٹوں کو صارفین کی جانب سے بغیر تصدیق اور ماہرین کی رائے جاننے ری شیئر کیا گیا تھا، جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔