سول ایوارڈز کی تقسیم

سول ایوارڈز کی تقسیم
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

قیصر کھوکھر: حکومت پنجاب نے سول ایوارڈز کے لئے بیورو کریسی اور اداروں کے سربراہان کو نامزد کر دیا ہے۔ اس میں تمام بڑے بڑے ناموں کو یہ سول ایوراڈ دیا گیا ہے جیسا کہ یہ کورونا کا سارے کا سارا آپریشن ہی ان افسران نے چلایا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کیپٹن (ر) عثمان اور نبیل اعوان کو ان کی انتھک کارکردگی کی بناء پر جائز طور پر سول ایوارڈ کیلئے نامزد کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس میں کورونا سے دوران ڈیوٹی شہید ہونے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس سٹاف کو بھی اس ایوارڈ کیلئے نامزد کیا جاتا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے۔

افسر شاہی جنہوں نے یہ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کرنا تھا انہوں نے یہ ایوارڈ آپس میں ہی تقسیم کر لئے ہیں اور پنجاب حکومت کی بنائی گئی کمیٹی نے یہ منظوری بھی دے دی ہے۔ اگر کام کی بات کی جائے تو پنجاب کے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکس سٹاف نے اس کورونا کے دوران شاندار کام کیا ہے اور ابھی تک ان ڈاکٹروں اور نرسوں کو کورونا رسک الائونس بھی نہیں دیا گیا ہے لیکن وہ پھر بھی کام کر رہے ہیں۔ کورونا میں میو ہسپتال اور پی کے ایل آئی کی شاندار کارکردگی رہی ہے۔

میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر طاہر خلیل نے کورونا کے عروج پر دن رات کام کیا اور پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم اور ڈاکٹر طاہر خلیل از خود کورونا وارڈ میں حفاظتی لباس پہن کر موجود رہے اور ڈاکٹروں اور نرسوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے ہیں۔ پی کے ایل آئی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر تزائن ضیاء نے کورونا کے دنوں میں دن رات کام کیا اور پی کے ایل آئی نے کورونا کے حوالے سے ایک نام کمایا ہے لیکن ان کا نام اس ایوارڈ لسٹ سے یکسر مسترد کر دیا گیا ہے۔

ایم ایس میو ہسپتال جس نے کورونا کے دنوں میں بھی میو ہسپتال کو فعال رکھا اور سارے لاہور شہر کے کورونا کے مریضوں کو میو ہسپتال میں داخل کیا گیا انہیں بھی اس ایوارڈ سے محروم کیا گیا ہے۔ اگر کام کی بات کی جائے تو اس سارے کورونا بحران میں سب سے زیادہ کام چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک نے کیا ہے اور یہ محکمہ پرائمری ہیلتھ کیئر اور محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے ساتھ ساتھ چیف سیکرٹری پنجاب نے دن رات کورونا پر قابو پانے کیلئے کام کیا ہے اور اس سارے عمل میں ایک افسر جس نے خاموشی سے کورونا پر کام کیا ہے وہ ہیں پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ پنجاب افتخار علی سہو اور ان کی ٹیم جس میں سپیشل سیکرٹری ایوان وزیراعلیٰ جاوید اختر محمود شامل ہیں ان کا اس ایوارڈ لسٹ میں کوئی نام نہیں ہے۔

سول سوسائٹی کے نمائندے اور سوشل ورکرز کا نام بھی اس ایوراڈ لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ پولیس کے وہ بہادر جوان جو کورونا کے باوجود ڈیوٹی دیتے رہے اور ان میں سے کئی ایک نے کورونا کے باعث جام شہادت نوش کیا ہے کسی ایک بھی کانسٹیبل یا تھانیدار کا نام اس لسٹ میں شامل نہیں ہے اگر پولیس کی مجموعی اور اوور آل کارکردگی کو چیک کیا جائے اور پولیس افسر بلال صدیق کمیانہ نے ہر پوسٹینگ کے دوران انتہائی ایماداری اور دیانتداری سے کرائم کنٹرول کیلئے کام کیا ہے اور پولیس سروس میں ان کی انٹری ایک اچھا اضافہ ہے۔

انہیں بھی ایوارڈ سے محروم رکھا گیا ہے اور یہ کہ آئی جی پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے پولیس افسران کو آگے لائیں اور ان کی خدمات کو تسلیم کریں تاکہ آج کا نوجوان ان پولیس افسران کو اپنے ہیرو کے طور پر یاد رکھے اور جس طرح فوج کے ہیرو کو یاد رکھا جاتا ہے اسی طرح پولیس کے ہیرو بھی آج کے نوجوان کے آئیڈیل ہو سکیں۔

سیکرٹری آرکائیو طاہر یوسف، سیکرٹری خزانہ عبداللہ سنبل، ایڈیشنل چیف سیکرٹری شوکت علی، سیکرٹری شہریار سلطان کورونا کے عروج کے دنوں میں بھی سول سیکرٹریٹ آتے رہے اور ان کا ماتحت سٹاف بھی اپنے دفاتر میں عوام کی خدمت میں مصروف عمل رہا حتیٰ کہ سیکرٹری شہریار سلطان جب کورونا کے وجہ سے بیورو کریسی گھروں میں چھپ گئی تھی وہ اپنے دفتر کے باہر برآمدے میں بیٹھ پر کام کرتے رہے ان کے سیکشن افسران نعمان علی ڈوگر، خرم حمید اور پی اے محکمہ سروسز فیاض احمد رات گئے تک سول سیکرٹریٹ کے کار سرکار کے سلسلہ میں مصروف رہتے۔

کسی بھی پی ایم ایس افسر کو اس ایوارڈ کیلئے نامزد نہیں کیا گیا ہے حتیٰ کہ پنجاب میں کورونا کا سارا آپریشن تحصیل کی سطح پر اے سی رینک کے افسران نے چلایا اس دوران محکمہ پرائمری ہیلتھ کے ڈپٹی سیکرٹری عبداللہ خرم نیازی دوران ڈیوٹی کورونا کا شکار ہو گئے اور کئی دن تک آئسولیشن میں رہے لیکن اس دوران بھی وہ دفتر کے ٹیلی فون پر کام کرتے رہے ہیں لیکن انہیں کوئی ایوراڈ کی بجائے کوئی سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیا گیا ہے۔

چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کی سطح پر ایوارڈ شو ہونے چاہیے جہاں پر غیر معمولی خدمات انجام دینے والے افسران کی خدمات کو تسلیم کیا جائے اور انہیں انعامات دیئے جائیں لیکن ابھی تک ایسی کوئی تقریب منعقد نہیں ہو سکی ہے۔ یہ وقت کا تقاضہ اور ڈیمانڈ ہے کہ حکومت اپنی ایوارڈ کمیٹی کا نئے سرے سے جائزہ لے اور جس افسران اور ماتحت ملازمین نے اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں۔

بلا تفریق ان کو ایوارڈ دیئے جائیں اور انہیں اس اعتراف میں اعلیٰ تقرریاں بھی دی جائیں تاکہ کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور کام چور کو گھیرائو ہو سکے ایوارڈ دیتے وقت جونیئر ملازمین کا بھی خیال رکھا جائے اور سارے ایوارڈ چند افسران کو آپس میں تقسیم نہ کرنے دیئے جائیں اور جو بھی کام ہو وہ میرٹ پر ہو اور اس میں شفافیت ہو تاکہ حق دار کو اس کا حق مل سکے۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر