(قیصر کھوکھر) پی ٹی آئی نے نیا پاکستان بنانے کے نعرے پر عوام کا مینڈیٹ حاصل کر لیا ہے اور اب ایک مضبوط اپوزیشن سامنے آ گئی ہے جو یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ عمران خان الیکشن کے دوران کئے گئے وعدے پورے کریں۔ اس وقت نیا پاکستان بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ملک کا نظام اور افسر شاہی وہی پرانی ہی ہے۔نوجوان بیوروکریسی کو کئی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے ایک بیوروکریسی گروپ تیار کیا ہے۔ جسے ڈی ایم جی ن کا نام دیا گیا اور یہی افسران نیب میں شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن رہے ہیں ۔ فواد حسن فواد، وسیم اجمل چودھری اور احد خان چیمہ جو کبھی مسلم لیگ ن کی آنکھ کا تارا ہوتے تھے، اب یہ نیب کی حراست میں ہیں اور نیب کو مسلم لیگ ن کی حکومت کے راز دے رہے ہیں۔ کمپنیوں میں کام کرنے والے راشد محمود لنگڑیال بھی ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ لیکن کوئی مانے یا نہ مانے کئی افسران کو محض اس لئے نیب تنگ کر رہا ہے کہ وہ ماضی میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے قریب رہے ہیں اور اس وجہ سے ان کا طرز عمل شاہانہ رہا ہے اور یہ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار رہے ہیں۔
اب یہ بیوروکریسی کیا نیا رنگ اختیار کرتی ہے اور کس طرح نئے پاکستان میں ایڈجسٹ ہوتی ہے۔ یا باقی سروس کھڈے لائن رہ کر گزارتی ہے۔ جس طرح ڈی ایم جی ن پہلے مسلم لیگ ن کے ساتھ رہا اور اب آہستہ آہستہ آنکھیں پھیر رہا ہے، اس سے غیر جانبدار اور نوجوان بیوروکریسی کو سبق حاصل کرنا چاہئے اور انہیں کسی بھی سیاسی جماعت خواہ وہ پی ٹی آئی ہی کیوں نہ ہو، کے ساتھ زیادہ قربت نہیں دکھانی چایئے اور نہ ہی سیاسی جماعت کا آلہ کار بننا چاہیئے، بلکہ اپنی غیر جانبدار حیثیت برقرار رکھنی چاہئے اور حکومت کی بجائے ریاست کے وفادار بن کر کام کرنا چاہئے تاکہ عوام کی خدمت بھی ہو سکے اور کل کلاں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے پر انہیں بھی فواد حسن فواد اور احد خان چیمہ کی طرح نیب کے ہاتھوں گرفتار نہ ہونا پڑے۔
دوسری جانب ملک کا نظام اور رولز اینڈریگولیشن وہی فرسودہ انگریز کے زمانے کے بنے ہوئے ہیں ۔ افسر شاہی کا نظام اتنا فرسودہ ہو چکا ہے کہ اس میں عوام کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا کیا جائے۔ پنجاب کی افسر شاہی بہت تیز اور شاطر بن چکی ہے انہیں جس انداز میں شہباز شریف نے چلایا ہے وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ یہ افسر شاہی دیر سے دفتر آنے اور دفاتر میں بیٹھ کو کسی سے نہ ملنے اور کام چوری کی عادی ہو چکی ہے۔ مکھی پہ مکھی مارنا اور فائل پر بے جا اعتراضات لگانا ان کا شیوہ بن چکا ہے ۔ محکمہ ایجوکیشن اور محکمہ ہیلتھ کا کوئی پر سان حال نہیں۔ خواتین ٹیچرز اور خواتین ڈاکٹرز اور نرسوں کو ملازمت کے نام پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اور جواحتجاج کرتاہے یا سڑک بلاک کرتا ہے اس کا کام ہو جاتا ہے، چھوٹے ملازمین کے گروپ پسے چلے آ رہے ہیں۔
دوسری جانب سیاسی نظام بھی پرانا ہے جو کہ نئے پاکستان کا ساتھ نہیں دے سکے گا، کیونکہ الیکشن جیتنے والے اراکین اسمبلی ماضی میں دیگر سیاسی جماعتوں کا حصہ رہے ہیں۔ اسمبلی میں پہنچنے والے زیادہ تر ارکان اسمبلی پرانے چہرے ہی ہیں ،جو تھانہ کچہری کی سیاست کر کے آگے آئے ہیں۔ اب بھی جس انداز میں آزاد اراکان اسمبلی کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگلی بننے والی پی ٹی آئی کی حکومت ان آزاد اور پریشر گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہوگی ۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں بیوروکریسی کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ پہلے ایک سال تو ان افسر شاہی نے نئی حکومت کو کچھ سمجھ ہی نہیں آنے دینا ہے۔ محکموں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ وہاں پر نہ تو انصاف ہو رہا ہے اور نہ ہی محکموں کی کوئی اپنی اِن پٹ یا آﺅٹ پٹ اور ڈیلیوری ہے۔
محکمانہ پالیسیاں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی نے گو کہ اپنے طور پر پی ٹی آئی کی اعلی قیادت سے رابطے شروع کر دیئے ہیں اور اپنی اپنی تقرریاں بچانے کے لئے ہاتھ پاوں مارنا شروع کر دیئے ہیں ۔ خاص طور پر تحصیل اور ضلع کی سطح کی انتظامیہ نے تو اپنے اپنے اضلاع اور تحصیلوں میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو پروٹوکول دینا بھی شروع کر دیا ہے اور ان کے جائز اور ناجائز کام بھی کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ پنجاب میں دو طرح کی بیوروکریسی کام کر رہی ہے، ایک وہ بیوروکریسی ہے جس کی ٹریننگ مسلم لیگ ن نے کی ہے، ان میں ڈی ایم جی ن غالب گروپ ہے۔
دوسری بیوروکریسی لوئر بیوروکریسی ہے جس میں ڈی ایس پی، انسپکٹرز، تحصیلدار، اسسٹنٹ کمشنرز اور دیگر تحصیل انتظامیہ شامل ہے۔ اس لوئر بیوروکریسی میں اکثریت ان افسران کی ہے جنہیں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ماضی میں اے ایس آئی، نائب تحصیلدار اور ایکسائز انسپکٹرز بھرتی کیا تھا اب وہ گریڈ 17اور گریڈ18تک پہنچ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت ہائی پروفائل میں ہے۔ اسے لوگوں کی ذہنی حالت بدلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایک عام آدمی اب بھی یہی سوچ رہا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا وہی پرانے دھکے عوام کو کھانے پڑیں گے ۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو عوام کاذہن بدلنا ہوگا اور ایک نیا وژن دینے کے لئے عوام اور بیوروکریسی کو ایک پیج پر لانا ہوگا۔ بیوروکریسی کو یہ ذہن نشین کرانا ہو گا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی بجائے ریاست کے وفادار ہیں ۔
اگر کوئی حکمران جماعت کے عہدیدار یا حکومتی مشینری کا کوئی بھی غلط یا غیر قانونی استعمال کرے گا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ افسر شاہی کے اندر گروپ بندی کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور کسی خاص گروپ یا کسی افسر کو نوازنے کی بجائے صرف اور صرف میرٹ پر تعیناتیاں کرنا ہونگی۔ پی ٹی آئی کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور اسے نیا پاکستان بنانے میں سب سے پہلی مزاحمت بیوروکریسی کی جانب سے ہوگی ،کیونکہ یہ بیوروکریسی انہیں میرٹ پر چلنے نہیں دے گی اور ان کے راستے میں روڑے اٹکائے گی۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہونگے اور افسر شاہی کے چناو میں غیر معمولی احتیاط کرنا ہوگی کہ کہیں ان کا نیا پاکستان کا نعرہ مدھم نہ پڑ جائے۔ کیونکہ عوام سے ملنا اور عوام کے مسائل کو حل کرنا اور عوام کے روز مرہ کے معاملات میں عوام کا براہ راست رابطہ تو اس افسر شاہی سے ہی ہونا ہے۔ دیکھتے ہیں پی ٹی آئی کی حکومت پرانی بیوروکریسی کے ساتھ نیا پاکستان کیسے چلاتی ہے۔