نیب اور بیوروکریسی کا احتساب

نیب اور بیوروکریسی کا احتساب
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( قیصر کھوکھر) خبر ہے کہ نیب قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے اور بیوروکریسی کو نیب قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ترمیم کے بعد نیب کسی بھی بیوروکریٹ کو طلب نہیں کر سکے گا اور نہ ہی کوئی سوالنامہ بھیج سکے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ افسر شاہی نے اس سلسلہ میں وزیر اعظم کو رضا مند کر لیا ہے اور وزیر اعظم نے اس حوالے سے نیب آرڈی نینس میں ترمیم کی ہدایت بھی کر دی ہے۔ اس سے افسر شاہی کے مزے دوبالا ہوجائیں گے کہ اگر گھر کے چوکیدار سے ہی نہیں پوچھنا کہ گھر میں کون آیا ، کہاں گیا اور کس کس جگہ کیا کیا خرچ کیا گیا تو پھر احتساب کے قانون کی روح ہی ختم ہو جاتی ہے۔ محکمے میں پرنسپل فنانشل افسر کے اختیار سیکرٹری کے پاس ہوتے ہیں اور پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی میں سیکرٹری محکمہ کی طرف سے پیش ہوتا ہے، اگر منسٹرنے ہی پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی میں پیش ہونا ہے تو پھر رولز آف بزنس میں بھی تبدیلی کرنا پڑے گی ۔

 اگر ایک افسر کا احتساب نہیں ہونا تو پھر اس کے پاس مالی اور انتظامی اختیارات کیونکر ہونگے اور اس کو کس طرح تقسیم کیا جائے گا۔ اگر بیوروکریسی احتساب سے مستثنیٰ ہونا چاہتی ہے تو اس سے تمام اختیارات اور مالی اختیارات اور ٹھیکے دینے کے اختیارات بھی واپس لے کر منسٹر کو دیئے جائیں۔ افسر شاہی کو احتساب سے مستثنیٰ قرار دے کر ریاست مدینہ کا خواب چکنا چور ہو جائے گا اور ایک محکمے میں وزیر اپنی مرضی سے ایک چپڑاسی کا بھی تبادلہ نہیں کر سکتا اور یہ کہ تمام اختیارات تو محکمے کے سیکرٹری کے پاس ہوتے ہیں۔ غیر جانبدار تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پہلے بیوروکریسی کا احتساب درست عمل نہ تھا اور جو کچھ اب کیا جا رہا ہے وہ بھی درست نہیں۔ جب تک کوئی عدالت سے گنہگار نہ ہو جائے اسے جیل نہ بھیجا جائے اور نہ ہی اسے ہتھکڑی لگائی جائے اور اس افسر کو نہ ہی گرفتار کیا جائے کیونکہ جب سے نیب نے فواد حسن فواد اور احمد خان چیمہ کو گرفتار کیا ہے اس وقت سے بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور فائلوں پر بے جا قسم کے اعتراضات لگانے شروع کر دیئے ہیں اور ٹھیکے دینے اور ٹھیکیداروں کو ادائیگیوں کا عمل رک گیا ہے۔ افسر شاہی اس وقت سارا دن دفاتر میں کام چھوڑ کر بیٹھ سی گئی ہے۔

 محکموں میں کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور افسر شاہی نے حکومت کو یہ باور کرایا ہے کہ اس صورتحال میں وہ کام کرنے کو تیار نہیں ۔انہیں مکمل طور پر تحفظ دیا جائے اور جس طرح جج اور جرنیل نیب کے احتساب سے مستثنیٰ ہیں انہیں بھی مستثنیٰ قرار دیا جائے اور یہ کہ کسی بھی افسر کو نیب کی جانب سے تفتیش کےلئے بلایا جانا ایک غلط اقدام ہے کہ فائل پر جس جس افسر کے دستخط ہوتے ہیں انہیں ہی بلا لیا جاتا ہے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ اس سے افسر شاہی کو مورال گر گیا ہے۔ اب اگر وزیر اعظم عمران خان نے بیوروکریسی کو نیب قوانین سے مستثنیٰ قراردینے کا فیصلہ کیا ہے۔تو یہ انتہائی ایک غلط فیصلہ ہے ۔اسے فوری طور پر واپس لیا جائے اور جس کے پاس بھی جتنا اختیار ہے۔ اس کا اتنا ہی احتساب ضروری ہے تاکہ ریاست مدینہ کا خواب پورا ہو سکے۔

 کہا جاتا ہے کہ اس وقت جی او آر ون کے بعض سیکرٹریوں کے گھروں کا تمام خرچہ محکموں کے خرچے سے چل رہے ہیں افسران کے کچن کے اخراجات بھی ان کے محکموں سے چلائے جا رہے ہیں۔ حکومت اگر پیسہ پیسہ کا حساب کرے گی تو خزانہ بھر جائے گا اور بیوروکریسی اختیار تو مانگتی ہے لیکن احتساب سے گھبراتی ہے۔ جب افسر شاہی لاکھوں روپے ماہانہ ایگزیکٹو الاﺅنس لیتی ہے اور گھروں کے بجلی اور گیس اور ٹیلی فون کے بل مانگتی ہے اور نئی گاڑیوں کی ایک فوج ان کے پاس رہتی ہے اور گھروں کی تزئین وآرائش بھی سرکاری خرچے سے کرائی جاتی ہے تو پھر افسر شاہی کو احتساب کا سامنا بھی کرنا چاہئے۔سیاستدانوں کا احتساب تو ہر وقت ہوتا رہتا ہے اور ہر پانچ سال بعد عوام بھی ووٹ کے ذریعے سیاستدانوں کا احتساب کرتے ہیں اور وزیر یا مشیر بننے پر نیب بھی ان کے پیچھے رہتا ہے لیکن ساتھ ساتھ بیوروکریسی کا احتساب بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک سیاستدان کا احتساب۔ بیوروکریسی سے ”چیک“ اٹھا لیاگیا تو اس کے بھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے بلکہ اس سے کرپشن کی حوصلہ افزائی ہوگی جو موجودہ حکومت کسی طور نہیں چاہتی۔ اس حوالے سے حکومت کو ایک پالیسی وضع کرنا ہوگی جس میں بیوروکریسی کے احتساب کیلئے ایسے ایس اوپیز طے کئے جائیں جس میں احتسابی عمل میں افسران کی عزت نفس مجروح نہ ہوبلکہ احتساب اس انداز میں ہو کہ مجرم بچ بھی نہ سکے اور بے گناہ کی تذلیل بھی نہ ہو

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر