سٹی 42 :ملک میں کورونا وائرس سے اب تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 346 ہوگئی جب کہ نئے کیسز سامنے آنے سے مصدقہ مریضوں کی تعداد 15759 تک جا پہنچی ہے۔اب تک سب سے زیادہ اموات خیبرپختونخوا میں سامنے آئی ہیں جہاں کورونا سے 122 افراد انتقال کر چکے ہیں جب کہ پنجاب میں 103 اور سندھ میں 100 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کے اس پھیلائو کوروکنے کیلئے ملک بھر میں لاک ڈائون ہے، تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز،سرکاری ،غیر سرکاری دفاتر ،کھیلوں کے میدان،سیاحتی مراکز،ائیر سروس ،پبلک ٹرانسپورٹ سبھی بند ہیں۔اس لاک ڈائون نے ملکی معیشت پر برا اثر ڈالا ہے،معاشی نقصان کو پورا کرنے کیلئے حکومت طرح طرح کے منصوبے تشکیل دے رہی ہے ،مشیر خزانہ کہتے ہیں کہ آئندہ بجٹ کورونا بجٹ ہوگا۔
ایف بی آر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انگریز ی اخبار کو بتایا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح دولت ٹیکس زیر غور ہے، یہ ٹیکس امیر افراد پر عائد کیا جائے گا تاکہ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے آمدنی میں اضافہ کیا جا سکے اور غریبوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ایک تجویز زیرغور ہے کہ زیادہ آمدنی والے تمام افراد پر سپر کورونا ٹیکس عائد کیا جائے، اس میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد شامل ہوں گے۔تاہم ایف بی آر کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف بی آر آئندہ بجٹ تک 51 کھرب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے، ایسا اسی صورت ممکن ہوگا جب آئندہ مالی سال کے آغاز سے ہی معاشی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہو جائیں، اگر کورونا وائرس طول اختیار کرتا ہے تو پھر دولت ٹیکس کی طرز پر کورونا ٹیکس کی تجویز زیر غور لائی جائیگی تاکہ امیر افراد پر عارضی طور پر یہ ٹیکس عائد کیا جا سکے۔
ماہر اقتصادیات نے تجویز بھی دی ہے کہ دو طبقات پر دولت ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔، یعنی گھریلو اور کمرشل رئیل اسٹیٹ جس کی مالیت 2 کروڑ روپے سے زائد ہو یا پاکستان میں رجسٹرڈ 30 لاکھ کار مالکان خاص طور پر 1000 سی سی کار کے حاملین پر ٹیکس عائد کیا جائے۔
اسی طرح 30 سے 40 ہزار شیئرز مالکان پر ٹیکس عائد کیا جائے جو کہ پی ایس ایکس کے ٹیکس ہیون سے گزشتہ دو دہائیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ان کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 70 کھرب روپے کے قریب ہے، حکومت ان پر یک بارگی 10 فیصد دولت ٹیکس عائد کرسکتی ہے، یہ افراد ممکنہ طور پر اپنے شیئرز فروخت کردیں گے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگا اس کا معیشت پر یا 20 کروڑ افراد پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا جب کہ اس سے پاکستان کو 500 سے 600 ارب روپے مل سکتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ 17 فیصد جی ایس ٹی بہت زیادہ ہے، اگر حکومت آئندہ سال سے یہ ریٹ کاروباری طبقے کے لیے 15 فیصد کردے تو وہ اس سے خوش ہوجائیں گے، تیسرا یہ کہ سیلز ٹیکس کا ان پٹ اور آؤٹ پٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے آسان ہے مگر عام تاجروں کے لیے آسان نہیں ہے، ان کے لیے ریٹ میں مزید 5 فیصد کمی کی جائے جس میں کوئی ایڈجسٹمنٹ یا ریفنڈ نا ہو اور چوتھا یہ ہے کہ کاروبار پر کم از کم ٹیکس شرح 1.5 فیصد بہت زیادہ ہے، جسے کم کرکے اعشاریہ 5 فیصد کیا جانا چاہیے۔